کتاب : تلاش
باب 10 : گلاب کا پھول
ٹرانسکرپشن : رفعت شیخ
بچہ اور بڑا
صاحبو ! ہم سب کے اندر ایک بچہ ہے ، معصوم بچہ ، جو ارد گرد کی چیزوں کو دیکھتا ہے اور حیران ہوتا ہے کہ یہ کیا ہے ؟ کیسے ہے ؟ کیوں ہے ؟ یہ دنیا دراصل ایک ونڈر لینڈ ہے اور ہمارے اندر کا بچہ ایلس ہے ، دنیا میں جتنا علم ابھی تک حاصل ہوا ہے سب اس بچے کی وجہ سے ہوا ہے جو گرد و پیش کو سرسری نظر سے نہیں بلکہ حیرت سے دیکھتا ہے۔
پھر ہمارے اندر ایک بڑا بھی ہے جو سمجھتا ہے کہ میں سب سمجھتا ہوں، اس میں حیرت کا جذبہ مفقود ہے ، یہ بڑا اس بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کرتا رہتا ہے ، تو خواہ مخواہ حیران ہو رہا ہے، بھئی یہ تو پتا ہے اور یہ پھول ہے اور یہ مٹی کا ذرہ ہے ، اس میں حیرت کی کیا بات ہے، بڑے کو احساس نہیں کہ ہم ونڈر لینڈ میں رہتے ہیں، یہاں کی ایک ایک چیز حسن اور حکمت سے بھری ہوئی ہے۔
قرآن کہتا ہے لوگو ! گرد و پیش کو اس بچے کی آ نکھ سے دیکھو ، تمھیں کیا کیا نظر آ تا ہے، اگر اس بڑے کی نظر سے دیکھو گے تو سب کچھ سپاٹ نظر آ ئے گا ، سچی بات ہے جس نے تخلیق کی رنگارنگی کو نہ دیکھا وہ تخلیق کار کی عظمت کو کیا سمجھے گا ؟
اللہ کہتا ہے، لوگو ! ہم نے یہ کائنات ایک ونڈر لینڈ بنایا ہے، شرط یہ ہے کہ تم میں دیکھنے کی صلاحیت ہو ، تم اس بچے کی آنکھ سے دیکھو، بڑے کی آنکھ سے نہیں، جو صرف اپنے مطلب کی چیز دیکھتا ہے اور باقی کو نظر انداز کر دیتا ہے۔
قرآن کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی سائنسی سپرٹ ہے ، اس کا انداز تحکمانہ نہیں ،
اس میں رواداری ہے ،
عقل و فکر کی تلقین ہے ۔
ہمارے رکھوالوں نے تبلیغ میں قرآن کا رویہ نہیں اپنایا بلکہ اس سے بالکل الٹ انداز اختیار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے اندر کے بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر ہمیشہ کے لئے چپ کرا دیا ہے وہ کہتے ہیں – یہ بچہ خواہ مخواہ میں مین میخ نکالتا رہتا ہے، سیدھی باتوں کو الجھاتا ہے، کفر پھیلاتا ہے۔