کتاب : تلاش
باب 11 : پلاؤ کی دیگ
ٹرانسکرپشن : منیب احمد
بھوں بھوں
ایک شام پروانوں کی بستی میں ایک بھڑ بھوں بھوں کرتا آگیا. پروانوں نے پوچھا٬ آپ کون ہیں؟ بھڑ بولا ٬ میں بھی پروانہ ہوں. پروانے بہت حیران ہوئے٬ ایسا بھوں بھوں کرنے والا پروانہ انھوں نے پہلے کبھی دیکھا نہ تھا. کہنے لگے٬ میاں ! آپ یہاں انتظار کریں٬ ہم اپنے بڑے بوڑھوں سے پوچھ آئیں. بڑے بوڑھوں نے کہا ٬ یہ بتاؤ کہ وہ جو خود کو پروانہ کہتا ہے ٬ وہ ہے کیسا؟
پروانے بولے٬ دیکھنے میں عجیب سا ہے٬ رنگ بسنتی ہے اور بھوں بھوں کرتا ہے.
بڑے بوڑھوں نے جھانک کر نووارد کو دیکھا تو بڑے حیران ہوئے. بولے٬ یہ تو کوئی عجیب سی شے ہے ٬ پروانہ نہیں لگتا. اندر سے ایک بوڑھا پروانہ بولا٬ نہ میاں ! جلد بازی نہ کرو٬ کیا پتا پروانہ ہی ہو. بڑے بولے٬ بابا ! وہ تو ہم سے بالکل ہی مختلف ہےاور پھر بات یوں کرتا ہے جیسے دھونس دے رہا ہو. بوڑھا بولا : میاں آج کل ساری چیزیں ادل بدل رہی ہیں٬ اس لیے یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا. پروانے بولے ٬ تو کیا کریں بابا ؟
بابا نے کہا٬ جا کر اس سے کہو کہ بھائی پروانے ! پہلے شہر جا٬ جا کر دیکھ آ شہر میں تمام بتیاں روشن ہو گئی ہیں. پروانوں نے بھڑ سے کہا٬ بھائی ! پہلے شہر جا٬ جا کر دیکھ آ کہ شہر میں تمام بتیاں جل رہی ہیں کیا. آدھ گھنٹے بعد بھڑ بھوں بھوں کرتا ہوا واپس آ گیا. کہنے لگا٬ شہر میں تمام بتیاں جل رہی ہیں٬ جگ مگ ہو رہی ہے. آج عالم اسلام میں اکثر پروانے ایسے ہیں جو بڑی خوشی سے بھوں بھوں اعلان کرتے ہیں کہ شہر میں بتیاں روشن ہیں. اللہ کے فضل و کرم سے جگ مگ ہو رہی ہے.
صاحبو ! یہ کوئی انوکھی بات نہیں٬ ہر مذہب کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے. جس طرح ہمارے ہاں ہر نئی حکومت کے ساتھ جیالے آ جاتے ہیں٬ اسی طرح ہر نئے مذہب کے ساتھ رکھوالے آ جاتے ہیں. اور جناب سیدھی بات ہے کہ رکھوالے ہمیشہ یہی کوشش کریں گے کہ عوام کو بھیڑیں بنائے رکھیں تا کہ ان کی اجارہ داری قائم رہے. ہندو آیا تو ساتھ برہمن آ گئے. پھر منو جی نے مستقل بنیادوں پر براہمنوں کی اجارہ داری قائم کر دی. ہیومن سوسائٹی کو ذاتوں میں تقسیم کر دیا. براہمنوں کو دیوتاؤں کا درجہ دینے کے لیے چھوت کی رسم چلا دی. ہندی سوسائٹی کا ایک بہت بڑا حصہ نیچ بنا دیا گیا. ہریجن اور غیر ہندو سبھی Untouchables قرار دے دیے گئے.