کتاب : تلاش
باب 11 : پلاؤ کی دیگ
ٹرانسکرپشن : ایمان عائشہ
سیکولرازم
صاحبو ! مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ اسلام کیا ہے ۔ ہمارے راہبر کہتے ہیں کہ میاں آسان بات ہے ! داڑھی رکھ لو ، لبیں کٹواؤ مسجد میں نمازیں پڑھو ، خطبے سنو ، پاجامے کا پائنچا ٹخنے سے اونچا رکھو ، روزے رکھو ، زکوٰۃ دو ، حج کرو تو تم سچے مسلمان بن جاؤ گے ۔ تمہاری روح میں پاکیزگی پیدا ہو جائے گی ، اور تم بہشت کے حقدار بن جاؤ گے ۔ کچھ لوگ جو قرآن کی رہنمائی کے قائل ہیں ، کہتے ہیں کہ اسلام کا مقصد یہ نہیں کہ فرد بہشت کا حق دار بن جائے ۔ اPurification of Sou تو ہر مذہب کا مقصود تھا۔ دنیا میں بیسیوں مذہب آئے ، ہر مذہب کا مقصد دیوتاؤں یا خدا کی خوشنودی اور روح کی پاکیزگی حاصل کرنا تھا ۔
اسلام عام مذاہب کی طرح نہیں ہے ۔ الٹا اسلام تو مذاہب کے خلاف ایک چیلنج ہے ۔ عام مذاہب میں تنگ نظری کا پہلو اس قدر شدید ہے کہ پڑھے لکھے نوکروں کے لیے مذہب ناقابل قبول ہو جاتا ہے۔ عام مذاہب سائنسی تحقیق کی اجازت نہیں دیتے ، اس لیے سائنسی محقق مذہب سے بے زاری کا رویہ اپنانے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ اس لیے سیکولر ازم وجود میں آیا ہے ۔ مذہب کے خلاف رویہ فیشن بن گیا ہے ۔ دراصل یہ رویہ مذہب کے خلاف نہیں ہے بلکہ ان اجارہ داروں کے خلاف ہے جو مذہب کے رکھوالے بن کر بیٹھ گئے اور احکامات جاری کرنے لگے۔ یہ نہ کرو ، وہ نہ کرو سوچنا گناہ ہے تحقیق کرنا کفر ہے ۔ عیسائی سائنس دانوں اور مفکروں نے برملا کہنا شروع کر دیا تھا کہ مذہب ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مغربی مفکروں نے علانیہ کہہ دیا کہ:
1- مذہب ہمارے بچوں کو عقل پر مبنی تعلیم حاصل کرنے نہیں دیتا۔
2- مذہب ہمیں آپس میں لڑاتا ہے۔
3- مذہب امن کا بیری ہے۔
4- مذہب جزا اور سزا کے چکر کے سوا کچھ بھی نہیں۔
مغربی دانشوروں کا کہنا ہے کہ آج انسان اس دور کی دہلیز پر آ پہنچا ہے جسے اہل نجوم امن کا سنہرا دور کہتے ہیں ۔ اس لیے اب ہم پر لازم ہے کہ ہم مذہب کے عفریت کا قلع قمع کر دیں ، مذہب سے بے زاری کی فضا دراصل مذہب کے اجارہ داروں کے رویے کی وجہ سے پیدا ہوئی جو روز بروز تقویت حاصل کرتی جارہی ہے ۔