کتاب : تلاش
باب 12 : دشمنی یا خوف
ٹرانسکرپشن : رضوانہ رائے
کام اور عیاشی کا میری گو راؤنڈ
لیجئے ایک نو مسلم سے اس لمحے کی کہانی سنئے۔ کہتے ہیں یونیورسٹی سے نکل کر میں عملی زندگی میں آیا۔ نیو یارک، ہالی وڈ، کیلی فورنیا، شکاگو جہاں بھی گیا، وہاں کے شب و روز میں غرق ہو گیا۔
یہ زندگی سراپا عیش و عشرت کی زندگی تھی۔ کوئی مادی آسائش ایسی نہ تھی جو میسر نہ ہو۔ میری زندگی ایک خوش کن خواب کے ما نند تھی، پھر دفعتاً ایک روز میری آنکھ کھل گئی۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ مجھے دنیا کی ہر متاع حاصل ہے اسکے باوجود میری زندگی کھوکھلی ہے۔ اس روز میرا جی چاہا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کہیں بھاگ جاؤں لیکن کہاں؟ اسکا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس بے چارگی کا شدید ردعمل ہوا اور میں شہوانی لذت میں پھر سے ڈوب گیا اور ایسی پستیوں پر جا پہنچا، جہاں خواہشات نفسانی کا الاؤ بھڑ بھڑ جل رہا ہے۔ اب میرے سامنے صرف دو راستے تھے یا اسی جہنم زار میں جل جل کر راکھ ہو جاؤں یا کوئی اور راستہ تلاش کروں۔
ایک روز دفعتاً میں چونکا۔ ایسے لگا جیسے کسی نے کان میں کہہ دیا ہو کہ جس راستے کی تمہیں تلاش ہے، وہ صرف مذہب ہی دکھا سکتا ہے۔ صاحبو ! اس مادی دنیا کے گرداب سے بچنے کے لئے جس میں آج اہل مغرب سب ڈب جھلکے کھا رہے ہیں، صرف ایک ہی صورت ہےاور وہ بہت ہی آسان اور سادہ صورت ہے۔ خود پر ایک خدا مسلط کر لو۔ بس اتنی سی بات ہے اور اتنی سی بات سے عظیم فرق پڑ جاتا ہے۔
یہ کائنات بے معنی پھیلاؤ نہیں رہتی، ایک با مقصد تخلیق بن جاتی ہے۔ زندگی محنت اور عیاشی کا “میری گو راؤنڈ” نہیں رہتی ، بلکہ با مقصد ہو جاتی ہے۔ چیزیں اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں، انسان ابھرتا ہے۔ انسانی قدریں اہمیت حاصل کر لیتی ہیں۔ انسانوں سے ایک بھائی چارے کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ آپ چاہے خدا کو جانیں یا نہ جانیں، سمجھیں یا نہ سمجھیں، لیکن اسے مانے بغیر چارہ نہیں۔اگر آپ اسے نہیں مانیں گے تو مادیت کا ایک جہنم، آپ کو چاروں طرف سے گھیر لے گا۔