کتاب : تلاش
باب 13 : انوکھا شہنشاہ
ٹرانسکرپشن : فیضان احمد
باندھ کر مروایا
ڈاکٹر ! میری کیفیت بالکل ایسی ہے جیسے تذکرہ غوثیہ کے حکیم کی تھی۔
“نقل ہے کہ ایک آدمی بہت غریب تھا۔ سارا دن دوڑ بھاگ کرتا لیکن مزدوری نہیں ملتی تھی۔ ملتی بھی تو معاوضہ اس قدر قلیل ہوتا کہ پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہ ہوتا۔ وہ اس مشقت سے اکتا گیا، زندگی سے اکتا گیا۔ اس نے سوچا، ایسے جینے سے مر جانا بہتر ہے۔
ایک روز وہ خودکشی کے ارادے سے جنگل کی طرف چل پڑا۔ گلے میں پھندا ڈالا، لٹکنے کے لئے چھلانگ لگانے والا ہی تھا کہ عزرائیل نمودار ہوا۔
عزرائیل بولا : ” میاں یہ کیا کر رہا ہے تو ! تجھے نہیں پتا کہ خود کشی حرام ہے۔”
وہ بولا ” جناب کیا کروں ! پیٹ بھرنے کے لیے روٹی نہیں ملتی، بھوکوں مرنے سے تو خودکشی بہتر ہے۔”
عزرائیل نے کہا : ” اگر تجھے کھانے کو روٹی مل جائے تو خودکشی سے باز آ جائے گا کیا ؟”
مزدور نے کہا : ” ہاں میں کیا پاگل ہوں کہ پھر خودکشی کا سوچوں۔”
عزرائیل نے کہا : ” اچھا تو تو حکیم بن جا۔ جب تو مریض کو دیکھنے جایا کرے گا تو ہم تجھے نظر آ جایا کریں گے۔ اگر ہم مریض کے سرہانے کھڑے ہوں تو سمجھ لینا کہ مریض کو شفا حاصل ہوگی، پھر تو اسے کوئی سے پڑیا دے دیا کرنا، وہ صحت مند ہو جائے گا اور اگر ہم مریض کی پائینتی پر کھڑے نظر آئیں تو جان لینا کہ مریض کا وقت پورا ہوچکا۔”
عزرائیل کے کہنے کے مطابق مزدور حکیم بن گیا۔ اس کی حکمت اتنی کامیاب ہوگئی کہ شہر بھر میں اس کا چرچا ہو گیا۔ یہ خبر بادشاہ کو پہنچی تو بادشاہ نے اسے آزمایا۔ آزمائش میں وہ پورا اترا تو بادشاہ نے اسے شاہی حکیم مقرر کردیا۔
ایک روز حکیم صاحب خود بیمار پڑ گئے۔ پھر جو آنکھ اٹھائی تو دیکھا کہ عزرائیل ان کی پائینتی پر کھڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر حکیم صاحب گھبرا گئے۔ انھوں نے سرہانہ اٹھا کر پائینتی پر رکھا اور رخ بدل کر لیٹ گئے۔
پھر جو دیکھا تو عزرائیل پھر پاؤں کی طرف کھڑے تھے۔
حکیم صاحب نے پھر سرہانہ بدل لیا۔
گھر والوں نے دیکھا کہ حکیم صاحب بار بار سرہانہ بدل رہے ہیں تو وہ گھبرا گئے۔ وہ کسی اور حکیم کو بلا لائے۔ معالج نے آتے ہی دیکھ کر کہا کہ سرسام کا دورہ پڑا ہے۔ ذہن ماؤف ہو گیا ہے۔ لہٰذا انہیں چارپائی پر باندھ دو تاکہ بار بار دیوانہ وار رخ نہ بدلیں۔
گھر والوں نے معالج کے حکم کے مطابق حکیم صاحب کو چارپائی پر باندھ دیا۔
اس پر حکیم صاحب نے بڑی بے بسی سے منہ پر ہاتھ پھیر کر عزرائیل سے کہا :
“حضور ! میں ہرگز نہیں مرتا، لیکن گھر والوں نے باندھ کر مروا دیا۔”
تو ڈاکٹر ! یہی میری کیفیت ہے۔ اس موضوع پر لکھنے کی جسارت میں کبھی نہ کرتا لیکن بزرگوں نے باندھ کر مروا دیا۔