کتاب : تلاش
باب 4 : بڑی سرکار
ٹرانسکرپشن : محمد فاران
عقل کی پکی سڑک
پھر بھی میں نے انھیں چھیڑا ۔ میں نے پوچھا ، ” آپ کو یہ مقام کیسے ملا , جس پر آپ فائز ہیں ” ؟
بولے ، ” عقل سے ملا ” .
” ارے ” ! میں چونکا ۔ بڑا غیر متوقع جواب تھا ، لیکن جواب میں بلا کی خود اعتمادی تھی ۔ میں نے کہا ، ” حضور ! ہم تو عقل کو راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہیں “۔
” آپ غلط سمجھتے ہیں ” ۔ وہ بولے ۔
پھر انھوں نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا ۔
وہ حلق کے نچلے پردوں سے قرآن نہیں پڑھ رہے تھے ، جیسے کہ قاری پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ وہ تو یوں قرآن پڑھ رہے تھے ، جیسے قرآن نہیں ، بلکہ کسی عرب شاعر کا کلام پڑھ رہے ہوں ، بلکہ یوں جیسے اللہ تعالی سے خود باتیں کر رہے ہوں ۔ ساتھ ساتھ ترجمہ بھی کرتے جاتے تھے۔
تقریباً دو گھنٹے پروفیسر ہمیں قرآن سے اقتباسات سناتے رہے ۔ لب لباب کچھ ایسا تھا کہ :
” لوگو ! دیکھو ، بار بار دیکھو۔ سوچو ، بار بار سوچو ۔ غور کرو ، فکر کرو ۔ آنکھیں بند کر کے ایمان نہ لاؤ ۔ اللہ نے تمھیں عقل دی ہے ۔ اپنی عقل سے کام لو ۔
” پہلے بات کو تولو ، آزماو ۔ اگر تمھارے دلوں میں شکوک پیدا ہوتے ہیں ، تو کوئی حرج نہیں ۔ جو شکوک ذہن میں آتے ہیں ، ان پر غور کرو ۔ جو جو Alternations ذہن میں آتے ہیں ، انھیں باری باری آزماؤ ۔ پھر تم جان لو گے ، کہ جو ہم کہتے ہیں ، وہی سچ ہے “۔
یہ باتیں سن کر حیرت ہوئی ۔ یہ کیسا اللہ ہے ، کہ ایک طرف تو اس کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا ۔ دوسری طرف حکم دیتا ہے ، کہ اگر کوئی ایمان نہیں لاتا ، تو نہ سہی ، اسے مجبور نا کرو ۔
بہرحال ، پروفیسر نے ہمیں عقل کی پکی سڑک پر ڈال دیا ۔
چار ایک دن تو میں پروفیسر کی باتوں پر غٹ رہا ، پھر شکوک نے سر اٹھایا ۔
کیا دل کی کوئی اہمیت نہیں ۔ وجدان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ کیا اللہ کے اتنے بڑے عاشق جو گزرے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پروانے ، صوفی ، فقیر ، قلندر ……. کیا ان کا کوئی مقام نہیں ۔ میں پھر ڈب جھلکے کھانے لگا ۔ میں نے مسعود قریشی سے بات کی ۔ اس نے ایک قہقہہ لگایا ۔ تمسخر بھرا قہقہہ ۔
مسعود ایک عجیب و غریب قسم کی شخصیت ہے ۔ بارہ مسالے قسم کی چیز ہے ۔ اس میں مختلف اور متضاد قسم کی خصوصیات ہیں ۔ مثلاً اس میں عقل بھی ہے ، جذبہ بھی ہے ، ایمان بھی ہے ، کفر بھی ہے ، فکر بھی ہے ، بے فکری بھی ہے ۔ وہ مثبت بھی ہے ، منفی بھی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تضادات کے باوجود اس کی شخصیت میں ایک ہم آہنگی ہے ۔ ہارمنی ہے ۔
مسعود قہقہہ مار کر ہنسا ۔ بولا ، ” مفتی ! تو بڑا کنفیوزڈ آدمی ہے۔ تو سمجھتا ہے کہ اللہ برانچ لائن ہے ۔ نہیں بھائی ! اللہ تو بہت بڑا جنکشن ہے ۔ کئی ایک راستے وہاں پہنچتے ہیں ۔ کئی ایک لائنیں آتی ہیں ۔ عقل کی لائن بھی پہنچتی ہے ۔ وجدان کی بھی اور پتا نہیں کون کون سے لائنیں پہنچتی ہیں ” ۔