کتاب : تلاش
باب 4 : بڑی سرکار
ٹرانسکرپشن : عاصم عباسی
علماۓ دین
صاحبو ! میں علمائے دین کی عزت کرتا ہوں۔ میں انہیں علی مرتبت سمجھتا ہوں۔ چونکہ وہ ہمارے راہبر ہیں، اس لیے ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مجھے ان سے شکایت ہے۔ شکایت انہی سے کی جاتی ہے جو بڑے ہوں، صاحب اقتدار ہوں، جن سے ہم نے امیدیں استوار کر رکھی ہوں ۔
مجھے ان سے شکایت ہے کہ انہوں نے آج تک سنجیدگی سے نہیں سوچا کہ ان کی تبلیغ کا کیا رخ ہونا چاہیے۔ انھوں نے دورِ ماضی کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دورِ حاضر راستے سے بھٹکا ہوا دور ہے، ملحد ہے رندۀ درگاہ ہے اس لیے لائق توجہ نہیں۔ حالانکہ یہی وہ مقام ہے جہاں تبلیغ کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کبھی نہیں چاہا کہ ان کا مقابلہ میڈیا سے ہے، ڈش انٹینا سے ہے، آوارہ، بے مقصد، بے منزل سائنس سے ہے۔
میرے دوست اشفاق احمد کا کہنا ہے۔
مولوی قابل احترام ہیں، اس لیے کہ انہوں نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے۔ سالہا سال سے وہ مسجدوں کو آباد کیے ہوئے ہیں۔ سالہا سال سے وہ بر وقت اذان دے کر مسلمانوں کو یاد لاتے رہتے ہیں کہ آؤ اللہ کے حضور سربسجود ہونے کا وقت ہے۔
اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ مولویوں نے اسلام کو زندہ رکھا ہے۔
اشفاق احمد کی بات ایک حد تک درست ہے
اسلام کے دو پہلو ہیں۔ ایک فارم، دوسرا سپرٹ۔ بے شک مولویوں نے اسلام کی فارم کی خدمت کی ہے، وہ بھی صرف نماز کی حد تک۔ انھوں نے اسلام کو نماز تک محفوظ کر دیا ہے۔ آج اسلام کا مبلغ صرف نماز کی تلقین کرتا ہے۔ اس نے اسلامی کردار کو بلکل پس پشت ڈال دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج اسلام صرف فارم تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ نماز پڑھو، پاجامہ ٹخنوں تک نہ پہنچے۔
آج سنت صرف جسمانی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کہتے ہیں، کمرے میں داخل ہوتے وقت خیال رکھو کہ دایاں پاؤں اندر دھرنا ہے۔ دائیں ہاتھ سے پانی پیو۔ لبیں کاٹو۔ کوئی نہیں کہتا سچ بولو، سنت ہے۔ لوگوں کے حقوق ادا کرو، سنت ہے۔
مولوی نے خدمت کے نقطۂ نظر سے مسجد کو آباد نہیں رکھا بلکہ اپنی امامت قائم کرنے کے لیے آباد رکھا ہے۔ مولوی نے نماز کا پرچار اس لیے کیا کہ نماز کے پرچار سے مولوی کی ذاتی اہمیت وابستہ ہے۔ مولوی آج بھی دیہات پر حکومت کر رہے ہیں۔
مولوی نے اسلام کو زندہ نہیں رکھا بلکہ اس سمندر کو چو بچہ بنا دیا ہے۔ اسلام کو زندہ صوفیوں نے رکھا، اولیائے کرام نے رکھا، خود اس نے رکھا جس نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے۔