کتاب : تلاش
باب 6 : یہ خدا ، وہ خدا
ٹرانسکرپشن : منیب احمد
دادی اماں
پرانے زمانے کی بات ہے جب میں بچہ تھا. ان دنوں دادی اماں نوے بیانوے کی ہوں گی. وہ بیشتر وقت اپنے کمرے میں اپنے تخت پر بیٹھی رہتی تھیں. یہ تخت ایک کھڑکی کے پاس تھا جس پر جائے نماز بچھی رہتی تھی. اس تخت کے بائیں ہاتھ کھڑکی تھی, بائیں ہاتھ کا ایک بہت بڑا لکڑی صندوق تھا جس پر ڈھکنا نہیں تھا. اس صندوق میں الم غلم چیزیں پڑی رہتی تھیں.
دادی اماں بیٹھ کر نماز پڑھا کرتی تھیں.
جب وہ نماز پڑھ رہی ہوتیں تو میں اکثر اپنے کمرے میں داخل ہو کر چلاتا ” دادی اماں میرا گیند کہاں ہے؟” میں نے کبھی نہیں سوچا کہ دادی اماں نماز پڑھ رہی ہیں. جب وہ نماز سے فارغ ہو جائیں تو گیند کی بات کروں.
“دادی اماں! میرا گیند, دادی اماں! میرا گیند.”
سجدے میں جانے سے پہلے دادی اماں کانی آنکھ سے صندوق کی طرف دیکھتیں جہاں گیند رکھا ہوتا. پھر جب وہ سجدے میں جاتیں تو بایاں ہاتھ صندوق میں ڈال کر گیند اٹھا لیتیں اور پھر سجدے سے اٹھ کر وہ گیند میری طرف پھینک دیتیں.
صرف میرے گیند کی بات نہ تھی.
جب دادی اماں نماز پڑھ رہی ہوتیں تو باہر صحن سے کوئی خاتون چولہے کے سامنے بیٹھے ہوئے چلاتی,” اب میں چاولوں کو دم دے دوں”. دادی اماں نماز پڑھتے ہوئے زور سے کہتیں:” اوں ہوں” اور نماز جاری رکھتیں.
محلے کی بڑی بوڑھیاں دادی اماں کی اس عادت پر ہنسا کرتی تھیں. دادی اماں سے مخاطب ہو کر کہتیں” نواب بی بی تو یہ کیا کرتی ہے. نماز پڑھتے ہوئے یکسوئی کا خیال نہیں رکھتی”. اس پر دادی اماں چلا کر کہتیں:” اے ہے! صرف اس کی نماز ہی تو ضروری نہیں, اور کام بھی ضروری ہوتے ہیں. یہ لڑکا گیند کے لیے روتا رہے اور میں نماز پڑھتی رہوں. ایسی نماز کس کام کی. اسے نہیں پتا کہ دنیاوی کام بھی ضروری ہوتے ہیں. میں تو کہتی ہوں دین اور دنیا ساتھ ساتھ چلتے ہیں. خالی نماز کا چھنکنا چھنکاتے رہو.”
ان دنوں محلے والیاں سب دادی اماں کی باتوں پر ہنسا کرتی تھیں. کہتی تھیں:” نواب بی بی سٹھیا گئ ہے”. اب میں جو سوچتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں دادی اماں نے دین اور دنیا میں کتنا سادہ قابلِ عمل اور خوشگوار توازن قائم کر رکھا تھا.