کتاب : تلاش
باب 8 : جہاں گُڑ ہو گا، وہاں چیونٹے تو آئیں گے
ٹرانسکرپشن : کرن احمد نواز
جھولا اور نمرود
سب سے پہلے عماد آیا۔ عماد ذات کا انجینئر ہے جو عبادات میں یوں بھیگا ہوا ہے جیسے جلیبی شیرے میں بھیگی ہوتی ہے، کہنے لگا
“آج تو موڈ آف نظر آتا ہے۔ کیا ہوا؟
میں نے مولوی صاحب کے خطبے کی بات سنائی۔ اس پر عماد ہنسا، کہنے لگا۔ مفتی جی ! خطبے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جراب والی بات تو بہت معصوم ہے ہم نے وہ خطبہ سنا ہے کہ آلاامان
مثلاً ہمارا گاؤں بڑے پر فضا مقام پر واقع تھا۔ جب برسات کا موسم آتا تو سبزے کا مخملی فرش بچھ جاتا۔ درختوں کی شاخیں دھنا دھن جھولتیں، طرح طرح کے پرندے اپنی اپنی بولیاں بولتے ایک سماں بندھ جاتا۔ بچے ضد کرتے تو بڑے رسوں کے جھولے بنادیتے جن پر بچے جھولتے۔ اس پر ہمارے گاؤں کی مسجد کے مولوی صاحب نےجمعہ کی نماز کے دوران خطبے میں ہم سب کو خبردار کیا کہ جھولا جھولنا ایک غیر اسلامی بلکہ شیطانی فعل ہے۔
مولوی صاحب کی یہ بات سن کر ہم سب حیران ہوئے۔
اعظمی نے کہا: آپ مولوی صاحب سے پوچھتے کہ شیطانی فعل کیسے ہے؟
عماد مسکرایا۔ کہنے لگا
آپ گاؤں کے مولوی صاحب کو نہیں جانتے۔ دئیات میں وہ اسلام پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے بحث نہیں کی جا سکتی۔
مولوی صاحب نے خود ہی جھولے کے مسئلے پر روشنی ڈالی اور کہنے لگے۔
نمرود نے جھولا ایجاد کیا تھا۔
قصہ یوں ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالنے کے لیے ایک بہت بڑا بھانبھڑ لگایا گیا تو وہ اس قدر بڑا ہو گیا کہ اس الاؤ کے قریب جانا مشکل ہو گیا اور کوئی شخص حضرت ابراہیمؑ کو اس میں دھکیلنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس وقت نمرود کو سوجھی اور اس نے رسے کا ایک جھولا درخت سے باندھا۔ جھولےکا رخ آگ کے الاؤ کی طرف کر دیا نمرود نے کہا، “حضرت ابراہیم ؑ کو جھولے پر بٹھا کر دھکا دو۔ جب جھولا الاؤ کے اوپر جائے گا تو رسہ جل جائے گا اور ابراہیمؑ الاؤ میں گر پڑیں گے۔
مولوی صاحب نے کہا۔ جو جھولا لگاتے ہیں وہ نمرود کے پیروکار ہیں۔ لوگوں اس بدعت میں مت پڑو۔
عمر ہنسنے لگا اور بولا۔ یہ خطبہ تو پرانا ہے۔ آج بسنت کے خلاف خطبے دئیے جارہے ہیں کہ بسنت منانا کفر کے مترادف ہے۔ یہ موسمی تہوار نہیں بلکہ ہندوانہ تہوار ہے۔ اسلام میں صرف مذہبی تہوار ہوتے ہیں۔