کتاب : تلاش
باب 11 : پلاؤ کی دیگ
ٹرانسکرپشن : فرمان اللہ
پلاؤ کی دیگ
تذکرہ غوثیہ سے نقل ہے کہ شہر میں ایک فقیر آیا۔ اس نے آتے ہی لوگوں سے کہا کہ ایک بہت بڑی دیگ لاؤ لوگ حیران ہوئے کہ فقیر نے دیگ کو کیا کرنا ہے۔ بہر حال انھوں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک دیگ مہیا کر دی ۔ فقیر نے کہا کہ چولہا گرم کرنے کے لیے لکڑیاں اکٹھی کرو۔ چولہا جل گیا تو فقیر نے کہا، اس دیگ کو چولہے پر رکھ دو۔لوگوں نے احتجاج کیا۔ بولے سائیں جی ! خالی دیگ کو چولہے پر رکھنے کا کیا فائدہ ؟
فقیر بولا، حجت نہ کرو ، جو میں کہتا ہوں ، سو کرو۔
مجبوراً لوگوں نے دیگ چولہے پر رکھ دی۔
اگلے روز لوگوں نے دیگ کا ڈھکنا اٹھا کردیکھا تو انکی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ دیگ پلاؤ سے بھری ہوئی تھی۔
فقیر نے کہا اب تم شہر میں منادی کرو کہ حاجت مند لوگ جب بھی چاہیں فقیر کے دارے میں آ کر کھانا کھا سکتے ہیں۔
لوگوں نے آنا شروع کردیا، فقیر دیگ پر کھڑا ہوگیا۔ جو بھی آتا رکابی بھر کر چاول نکال دیتا۔ دو ایک دن بعد سارا شہر دیگ پر ٹوٹ پڑا۔ فقیر سارا دن چاول بانٹتا رہا۔
رات کو ڈھکنا دے دیا جاتا ، اگلے روز جب وہ ڈھکنا اٹھاتے تو دیکھتے کہ دیگ جوں کی توں بھری ہوئی ہے۔
ایک روز فقیر کے سامنے ایک ملنگ آ کر کھڑا ہوا۔ فقیر نے کہا، میاں یہاں کھڑا میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے۔ اپنے حصے کے چاول لے اور رخصت ہو۔
ملنگ بولا، سائیں ! میں چاول لینے کے لیے نہیں کھڑا میں تو تیری زیارت کے لیے کھڑا ہوں کہ تو اس شہر پر رب بن کر نازل ہوا ہے۔دھڑا دھڑ لوگوں کو رزق بانٹ رہا ہے۔ فقیر بولا، میاں رزق تو وہی بانٹتا ہے میں تو برتاوا ہوں برتا رہا ہوں۔
صاحبو ! پاکستان کی مالی حالت بڑی پتلی ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے لیکن میرے دوستو دیکھو، صرف دیکھو نہیں دیکھو اور سمجھو کہ جس پاکستان میں ہر چوتھی دوکان کھانے پینے کی دوکان ہے، جہاں لوگ کھا رہے ہیں، کباب کھا رہے، نہاری کھا رہے ہیں، سری پائے کھا رہے ہیں یہ دیگ ختم ہونے میں نہیں آتی ادھر حکمران کھا رہے ہیں اور ادھر جیالے کھا رہے ہیں، ادھر شاہی افسر کھا رہے ہیں اس طرف عوام کھا رہے ہیں۔ کھاؤ میرے بھائیو کھاؤ یہ دیگ کبھی ختم نہیں ہوگی۔
صاحبو ! اگر میں کہوں کہ اسلام مذہب ہی نہیں ہے تو کیا آپ میری بات مان لیں گے۔ غالباً نہیں لیکن اگرآپ قرآن کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آجائے گی کہ اسلام میں کوئی ایسی بات نہیں جو ہر مذہب میں لازماً پائی جاتی ہے جو مذہب کی پہچان ہے۔