Sohni Episode 3
سنا ہے وقت کیسا بھی ہو کٹ جاتا ہے۔۔ہر رات کی صبح
ہوتی ہے۔۔۔
افسری کی باتیں کہیں بہت پیچھے رہ گئیں۔۔
اب اماں ان بہنوں کی شادی کی بات یوں دہراتی رہتیں جیسے وہ سب بڑھاپے کی دہلیز
پہ بیاہے جانیکی حقدار بنی بیٹھی ہیں یتیمی نے انہیں جوان ہونے سے پہلے بوڑھا کر
دیا تھا۔۔۔!!
عیدیں آتیں لوگ بنتے سنورتے ماموں گھڑی دو گھڑی گھر آتے اور انہیں عید دے
جاتے۔۔۔اماں اپنے طور پہ انہیں کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دیتیں سلائیاں کرتیں
مزدوریاں پکڑتیں اماں کے کچھ رشتے دار اماں کی ماہانہ مدد کرتے۔۔۔سوہنی اور اسکی
بہنیں ان دیکھا کرتیں کہ اماں کا زیور کم ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ابا نے جو بندے اور
بالیاں انکے لئے بنوائی تھے انہیں چھوڑ کے اماں کی سب چیزیں گمتی جا رہی ہیں۔۔
سوہنی کی طرف اماں کا خاص جھکاؤ تھا۔۔اب بھی اسے سب سے پیارا جوڑا لا کے
دیتیں۔۔کہ بس تو خوش رہ۔۔۔تیرا شوق ہے ناں تیرا باپ ناراض ہو گا اگر تجھے جوڑا نہ پہنایا۔۔۔
سوہنی اور اسکی بہنیں وقت سے پہلے بڑی ہوتی گئیں۔۔۔
کبھی محلے کے کسی لڑکے نے آتے جاتے رستہ روکا۔۔۔کبھی سکول آتے جاتے محلے کے
وہ مرد جنہیں ماموں ،انکل پکارتے زندگی گزری تھی نظریں گاڑ گاڑ کے دیکھتے۔۔۔کبھی
اماں کو اچانک خود سکول چھوڑ کے اور لیکے آنے کا دورہ پڑتا تو سوہنی کو لگتا اماں
کو سب پتہ ہے جو ہم نہیں بتاتیں وہ بھی اماں کو پتہ ہے۔۔۔مردوں کے معاشرے میں ایک
تین کمروں کے گھر میں رہنے والی بیوہ عورت اور بھرے پرے گھر میں بسنے والی عورت کی
زندگی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔۔۔
سوہنی اب آٹھویں پاس کر چکی تھی آپا دسویں پاس کر کے کالج جا رہی تھی جوانی
اب جوبن پہ تھی اور مفلس کی بیٹی پہ جوانی عذاب بنکر نازل ہوتی ہے۔۔۔
جوان ہوتیں وہ بہنیں اب کمروں میں خود سے بھی چھپتی پھرتیں۔۔مالک مکان کے
پینتیس سالہ بیٹے کا رشتہ لیکر اسکا باپ آیا تو اماں رو دی۔۔
میری بچیاں تے اجے بوت نکیاں نیں اجے پڑھدیاں پیاں نیں۔۔اماں کو حالات کی
سنگینی کا اندازہ ہوا اماں ماموں کے گھر کی ایک بیٹھک کے بدلے انکی مفت کی ملازم
بن گئیں۔۔تاکہ بیٹیاں محفوظ رہیں لوگوں کو احساس رہے کہ یہ لاوارث عورتیں نہیں
ہیں۔۔۔
ماموں دبئ میں نوکری کر رہے تھے۔۔مامی اپنی چھ بچوں کیساتھ گھر کی پردھان
منتری تھیں۔۔اماں بھابھی کے آگے گونگی بہری بنی حق ناحق سنتی رہتی۔۔۔سوہنی کی آئے
دن مامی کیساتھ لڑائ ہو جاتی۔۔مامی اسے ہمیشہ سوہنی صورت اور لمبی زبان کا طعنہ
دیتیں۔۔
اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مامی نے کچن کو تالا چڑھا دیا۔۔
اب سوہنی اور اسکی بہنیں صبح بھوکی سکول نکل جاتیں۔۔دوپہر میں آتیں تو مامی
انکے کمرے کا پنکھا بند کر جاتی۔۔
ایک روز سوہنی پھٹ پڑی۔۔
ہم بھی تو برابر کا بل دے رہے ہیں ۔برابر کا راشن بھی لاتے ہیں تو مامی ہمیں
کیوں تنگ کرتی ہے اس نے پوری رات جاگ کے ماموں کو خط لکھا۔۔۔مامی کی ایک ایک
زیادتی بتائ۔۔۔
کچھ روز بعد سکول سے پلٹی تو اماں بیٹھی رو رہیں تھیں۔۔
مامی مزے سے بیٹھی کھانا کھا رہی تھی۔۔
سوہنی کے آتے ہی مامی نے ماموں کا خط اسے پکڑایا۔۔
توں کی سمجھنی ایں تیرا ماما تیری منے گا؟؟(تم۔کیا سمجھتی ہو تمہارا ماموں
تمہاری مانے گا)
سوہنی نے خط کھولا جو پہلے سے کھلا ہوا تھا۔۔
اندر چار سطریں تھیں
آپا میری بیوی پہ الزام تراشی نہ کر اسنے تجھے رہنے کو چھت دی ہے آسرا دیا ہے
اسکی تو بن کے رہ۔۔جیسے تو نے زہر اگلا وہ بھی تیرے متعلق اگل سکتی ہے پر وہ میری
مجبوریوں کو سمجھتی ہے خدا کیلئے مجھے پردیس میں پریشان نہ کر۔۔۔
سوہنی نے حیرت سے اماں کی طرف دیکھا۔۔
اماں پر خط تے میں لکھیا سی۔۔۔میں آپنا نام لکھیا سی۔۔۔ماموں ایس طرح کیوں
کہہ رے میں تے سب سچ لکھیا سی اماں؟؟
اماں نے اٹھ کے اسے کندھوں سے پکڑا اور کمرے میں لے آئ۔۔۔
تینوں کس نے کہیا توں خط لکھ۔۔۔اسی چنگے بھلے تے رہ رئے آں توں مامی نوں وی
ناراض کیتا ماموں دا پردیس اچ دل دکھایا کی لبیا؟؟؟
توں برداشت کیوں نئیں کردی۔۔۔اے کار تیری مامی دا اے گھر گھر والیاں دا ہوندا
اے۔۔۔دوجیاں نال ضد نئیں کری دی ایس لئ او کیندی کہ تیری اولاد نافرمان اے،،زبان
دراز اے۔۔سوہنی مینوں اے گلاں نئیں برداشت ہن توں اک لفظ بولی تے مینوں تیرے تائے
گھر چھڈ آواں گی۔۔۔
ہاں تے چھڈ آؤ مینوں۔۔۔سوہنی چلائ۔۔
جنہاں دی میں ہاں مینوں اونہاں گھر چھڈ آو۔۔تسی سانوں ایس لئ ایتھے لیائے او
کہ اسی پکھے مرئیے،،سارا دن کم کرئیے بل وی بھرئیے اور روٹی دے ٹئیم اسی چپ کر
جائیے۔۔۔شکر اے مینوں اللہ نے ایہو جیا بھرا نئیں دتا۔۔۔
اماں نے جوتی اتار لی خبردار ،جے اک لفظ وی میرے بھرا نوں کہویں۔۔توں کی
جانے منحوسیں بھرا کی ہوندے۔۔او مجبور اے اپنے بال بچے نئیں چھڈ سکدا میرا خون ہے
او سب جاندا سب پہچاندا وے۔۔۔
آٹھ دس دن بعد حسب عادت مامی کا کسی بات پہ موڈ آف ہو گیا سوہنی اور اسکی
بہنیں سکول سے لوٹیں تو انکے کھانے کے برتن انکے بسترے مامی اٹھا اٹھا کر باہر گلی
میں پھینک رہی تھی اماں دھاڑیں مار مار کے روئ جاتی اور چیزیں چنتی جاتی۔۔
محلے والے کبھی اماں کو تھامتے کبھی مامی کو شرم دلاتے۔۔
کہ اچانک ماموں آن پہنچے۔۔۔سب کو سانپ سونگھ گیا۔۔ماموں بنا کسی کو بتائے
اچانک گھر لوٹے تھے۔۔
بہن بنا دوپٹے گلی سے برتن سمیٹ رہی تھی۔۔
بھانجیاں گھر کی سیڑھیوں پہ بیٹھی سامان سمیٹ رہی تھیں اور بیوی بیٹیوں کیساتھ
فریج میں رکھا سالن اور آٹا تک اٹھا کر باہر پھینکنے آ رہی تھی۔۔۔
وہ مامی کی اجارہ داری کا ڈراپ سین تھا۔۔
ماموں نے اگلے چند دنوں میں آپا کا رشتہ فائنل کیا اور ایک الگ کرائے کا گھر
جو اپنے گھر سے بالکل قریب تھا لے لیا ۔۔ماموں نے اماں کے تمام اخراجات اٹھانے کا
وعدہ کر لیا۔۔آپا کے نکاح سے ایک رات پہلے ماموں ہاتھ جوڑ کے سوہنی اور اسکی بہنوں
کے آگے آن بیٹھے ۔۔۔روتے جاتے معافیاں مانگتے جاتے۔۔کہتے میں تب بھی سب جانتا تھا
مجھے لگا اسے سمجھانا بیکار ثابت ہو گا۔۔تم لوگ صبر کا مظاہرہ کرو گے تو وقت کٹ
جائیگا۔۔۔
پر یہ تو میں نے کبھی نہ سوچا تھا کہ وہ خدا بن بیٹھے گی۔۔۔میری چار بیٹیاں
نہ ہوتیں تو جو میں نے دیکھا میں کب کا اسے فارغ کر چکا ہوتا۔۔۔تمہارے باپ کے مجھ
پہ بڑے احسانات ہیں میں تم لوگوں کو یوں روتے بلکتے نہیں دیکھ سکتا مجھے بدعا نہ دینا
میری اولاد نا سمجھ ہے تم لوگ معاف کر دو ۔۔۔!!!!