اب اور نہیں ، کشور ارشد
ملتان سے بارہ کلو میٹر دور ایک چھوٹا سا گاؤں ہے خانوکی۔ گاؤں میں بڑ ے زمین دار بستے ہیں وہاں خان اکبر خان کی پکّی حویلی میں وہ اپنی تینوں اولادوں کے ساتھ بستے تھے دو بیٹے زیشان خان اور عالیشان خان بڑ ے تھے بیٹی چھوٹی تھی زرشے خان ۔سینکڑوں ایکڑ زمین کے مالک اکبر خان کے بیٹوں کو پڑھائی لکھائی کا کوئی شوق نا تھا ان کے شوق شکار اور گھڑ سواری تھے ۔باپ داد کی دولت پر عیش کی زندگی گزار رہے تھے ۔۔۔۔پر زرشے کو نجانے کیسے پڑھائی کا شوق تھا میٹرک تو گاؤں کے سکول سے کر لیا پر اکبر خان نے کالج جانے کی اجازت نا دی اکبر خان کا کہنا تھا ہم نے کون سا نوکری کروانی ہے (ان کو کون سمجھائے علم نوکری کے لئے تھوڑا حاصل کرتے ہیں )خیر زرشے نے کتابیں منگوا کر پرائیوٹ ایف اے کی تیاری شرو ع کر دی ۔دونوں بھا ئیوں کی شادیاں ہو گیں ۔خانم کو زرشے کی شادی کی فکر تھی وہ اکبر خان سے کہتی تو وہ ٹال دیتے ابھی بچی ہے گاؤں کی مسجد کے امام نہایت دین دار انسان تھے سید رضوان شاہ ان کا ایک ہی بیٹا تھا سید قاسم شاہ جو ملتان میں پڑھتا تھا ایم اے کر کے ایل ایل بی اعزازی نمبروں سے پاس کیا قانون کی اعلی ڈگری کے لیے سکالرشپ حاصل کر کے باہر جا نے والا تھا ۔۔قاسم گاؤں آیا ہر کوئی اس کے اخلاق کا گرویدہ تھا ۔۔۔۔۔پر خانوں کو زیادہ نا بھایا ۔اکبر خان نے کہا اس نے پڑھائی کا چا اتار لیا ہے مولوی تو اس کو کورس کروا گاؤں کی مسجد سنبھاے ویلا پھرتا ہے ۔۔۔۔ مولوی صاھب نے بتایا یہ تو ملنے آیا ہے جی ولایت جا رہا ہے قانون پڑھنے ۔۔۔۔اور خان کے ماتھے کی سلوٹیں اور گہری ہو گیں ۔۔
زرشے کو پڑھائی میں مزہ آ رہا تھا پر انگلش گرائمر اسے مشکل لگ راہی تھی اس نے بابا سے دو ایک بار ٹیوشن کا کہا تھا ۔۔خان اکبر خان اپنے نوکروں کے ساتھ زمینوں کا چکر لگا نے گے کلف زدہ لباس فخر سے اکڑی گردن چال میں غرور ۔سامنے سے قاسم شاہ چلتا ہوا آ رہا تھا نجانے اسے دیکھ کر خان کو اپنا آپ سکڑتا ہوا کیوں محسوس ہوتا ۔او لڑکے کیا نام ہے تمہارا جی سید قا سم شاہ وہ مسکرایا ۔ہماری بیٹی کو انگلش پڑ ھنے میں کچھ دقت ہے کل سے اسے پڑھانے آو ۔جی بہتر قاسم نے شائستگی سے جواب دیا پانچ ہزار تنخواہ دوں گا ۔خان صاحب پیسوں کی ضرورت نہیں کیسے ضرورت نہیں اپنا صحن ہی پکّا کروا لو ۔۔۔برسات میں کیچڑ بھر جاتا ہے اپنا نہیں تو اپنے ماں باپ کا خیال کرو کوئی گر گرا گے تو علاج کہاں سے کراؤ گے ۔۔۔قاسم شاہ کے چہرے پر ایک سایہ سا گزر گیا ۔اسے سمجھ ا چکا تھا اکبر خان اسے صرف اپنا ملازم بنانا چاہتا ہے خیر اگلے دن وہ پڑھانے چلا گیالمبی راہداری سے گزر کر ایک بیٹھک میں بٹھا دیا گیا باہر دو گن مین ۔ کھڑے تھے سب کچھ عجیب تھا ۔وہ کمرے کی آرائیش دیکھنے میں گم تھا کے ایک مسحور کن خوشبو اور اس سے بھی مدھر آواز اسلام علیکم وہ سامنے کھڑی تھی کالی چادر ما تھے سے پاؤں تک اوڑھ رکھی تھی کالی چادر میں سفید رنگ اور ہی دھمک رہا تھا قاسم شاہ لڑکیوں کے ساتھ پڑ ھتا تھا پر ایسا حسن اس نے پہلی بار دیکھا تھا ۔خیر وہ اس کو دو گھنٹے پڑھاتا رہا اور اپنی روح وہیں چھوڑ کر خالی بت لے کر گھر لوٹ آیا زرشے حسین تھی ،ذہین ،سمجھ دار تھی اس کی پاکیزگی اور مصومیت نے قاسم شاہ کو مسحور کر دیا لیکن وہ چا ند تھی اور قاسم چکور قاسم ٹاٹ تھا وہ مخمل ۔پاکیزہ محبت کی آنچ زرشے کے دل تک پہنچ گئی وہ بھی قاسم کی ذہانت شرافت اور مسکراہٹ جو ہر وقت اس کے لبوں پر رہتی دل ہار چکی تھی ان دنوں زرشے کے دو ایک رشتے آے ہوئے تھے خانم کا خیال تھا اس کے ہاتھ پیلے کر دیے جائیں رات اکبر خان نے بیوی سے کہا کل زرشے کا نکاح ہو گا اسے بتا دینا ۔ہیں ؟؟؟؟خانم حیران ہو گئی کس سے ؟مجھے خبر تو ہو آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔بس کہ دیا جو کہنا تھا میرے باپ دادا کی جائداد باہر نہیں جاۓ گی اف خانم نے دل تھام لیا سمجھ گئی کوئی پہلی بار نا تھا یہ پہلے بھی ہو چکا تھا ????اگلے دن مولوی صاحب کو بلوایا جب وہ حویلی آ گنے تو ان کو بتایا گیا کے آج بیٹی کا نکاح ہے پر حویلی پر چھایا سنناٹا سید رضوان شاہ کو ہیولا رہا تھا نا تمبو نا دیگیں نا سجاوٹ نا برات کے استقبال کی تیاری الہی ماجرا کیا ہے ۔اتنے میں لال چنی میں لپٹی زرشے کو اس کے دونوں بھائی پکڑ کر لاے اور اکبر خان قران پاک اٹھاۓ ہوئے آیا اور بولا میری بچی پاک پاکیزہ ہے اور اس کا بر (نعوز با الله )قران کے سوا کوئ نہیں ہو سکتا مولوی جی بسم الله کریں نکاح پڑھوا دیں دھرتی کانپ گئی ۔۔اور ابلیس مسکرایا ہو گا ۔ہرگز نہیں یہ گناہ عظیم ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا مولوی صاحب غصہ سے تھر تھر کانپ رہے تھے وہ دروزے کی جانب بڑھےپر خانوں نے بندوقیں تان لیں زد و کوب کیا آخر اکبر خان نے کہا یہ کام ہر حال میں ہو گا اس کو دفع کرو ساتھ کے گاؤں سے ملا لے آو کام ہو جاے پیسوں کی پروہ مت کرنا ۔۔۔سید رضوان شاہ شکستہ پا گھر لوٹ اے قاسم شاہ کو سارا ماجرا سنایا ۔۔۔یہ جمرات کی رات تھی
آج جعمہ تھا مولوی صاحب تو چوٹوں اور صدمےسے بستر سے لگ گے اور قاسم شاہ نے غسل کیا سر پر عمامہ باندھا جہاز کی ٹکٹ پھاڑ کر پھنکی دل میں کہا اب ۔اور ۔نہیں اور ممبر پر جا بیٹھا ایسا جعمہ کا خطبہ دیا کے بات لوگوں کے دل میں اتر گئی زرشے پر ہوا ظلم لوگوں کی دین۔سے دوری کا درد زبان بن گیا اسے پیارے نبی صلی اللّه علیہ والہ وسلم کا اخری خطبہ یاد آ گیا لوگو عورتوں کے بارے میں اللّه سے ڈرو ۔۔۔وہ بولالوگو اسلام دین فطرت اور مکمل ضابط حیات ہے کسی عورت کا نکاح قران سے نہیں ہو سکتا قران اللّه کا کلام ہے روشنی اور علم کا ماخذ ہے اسے اردو ترجمه سے پڑھیں اور عمل کریں ۔۔۔لوگو تمہاری بیٹیوں کا تمہارے مال میں حق ہے یاد رکھو جو وہ حق دبا لے گا وہ مقروض مرے گا جب تک بیٹی کا حصّہ نہیں نکالو گے الله کی قسم تمہارا مال ناپاک ہے وہ مال تمہارے لئے حرام ہے ان کا حق خوش دلی سے ادا کرو ۔انھیں کسی فضول رسم کی بھینٹ نا چڑھاو۔ تم سے ان کے بارے میں پوچھا جاۓ گا ۔۔۔اور ظلم اب اور نہیں ۔۔۔۔۔
سید زادہ تھا علم رکھتا تھا زبان میں درد تھا بات گاؤں والوں کے دل میں گھر کر گئی۔ ۔۔۔۔