لکھ یار

“حیات ” قسط 3 از قلم “عظمیٰ خرم “

#پری_اپرووڈ 

#حیات_پارٹ_3

 

از قلم ،”عظمیٰ خرم”

صدمے اور نقاہت سے بختاور کی حالت کافی خراب تھی ۔نوراں نے اسے تسلی دی کہ اس کے چاروں بچے محفوظ ہیں اور اس کے گھر پر ہیں ۔بختاور کی حالت دیکھتے ہوے ڈاکٹر نے اسے سکون آور انجیکشن لگا دیا تھا۔رات کے کسی پہر بختاور کی آنکھ کھلی ،دماغ ابھی بھی بیہوشی والی دوائی کے زیر اثر تھا اس نے دیکھا حشمت اللّه اس کے سرہانے بیٹھا ہے اور اسے دیکھ کر مسکرا رہا ہے ۔بختاور کی نيم وا آنکھوں میں آنسو بھر آے اس نے حشمت اللّه کی دهندلی ہوتی شبیہ کو دیکھتے ہوے کہا ،”خود تو جنت میں چلے گئے اور مجھے دوزخ میں چھوڑ گئے ہو “۔تبھی حشمت اللّه بھرائی آواز میں بولا ،”جهلیے ! میرے لیے تو جو بھی ہے تو ہی ہے ۔تیرے بغیر تو جنت بھی نہیں قبول ،بس تو جلدی سے ٹھیک ہو جا پھر گھر چلیں بچے پریشان ہو رہے ہوں گے “۔ بختاور کے سن ہوتے دماغ کو جیسے چار سو چالیس واٹ کا کرنٹ چھو گیا ۔یہ آواز سننے کو تو وہ ترس گئی تھی ۔۔۔۔۔اس نے حشمت کو چھو کے دیکھا ،”زاہد کے ابا آپ زندہ ۔۔۔۔۔۔”اور زار و قطار رونے لگی ۔حشمت اللّه اس کے درد کی نوعیت سمجھ سکتا تھا وہ بھی آبدیدہ ہو کر اسے چپ کروانے لگا ۔

حشمت اللّه جب لاہور سے نکلا تو جلندهر سیدھا اس پتے پر پہنچا جہاں کا پتا اس کی بیٹی نے دیا تھا پر وہ وہاں نہیں تھی۔صغراں کا شوہر اس حق میں نہیں تھا کہ اس تاریخی بٹوارے کا حصہ بنے ۔اسے اس زمین سے اس زمین تک تہی دامن ہو کر جانا منظور نہیں تھا ۔آہستہ آہستہ سب لوگ گاؤں چھوڑ کر جانے لگے۔صرف گنتی کے چند گھر ہی بچے تھے جو صغراں کے شوہر کی طرح ضد پر اڑے تھے ،پر تبھی ہوا میں خون کی بو پهيل گئی سکھوں اور ہندوؤں کے جتھے تک خبر پهيل گئی تھی کہ گاؤں خالی ہو چکا ہے اور گنتی کے چند مسلمان گھرانے بچے ہیں ۔لہٰذا ایک رات انہوں نے شب خون مارا اور سارا گاؤں لوٹ لیا نہ اسباب بچے نہ مال نہ کسی کی جان نہ کسی کی عزت ۔اس رات خوف کے سایے چاروں طرف پھیلے ہوے تھے صغراں نے بڑی مشکل ہاتھ پاؤں جوڑ کر اپنے شوہر کو منایا کہ چلو کہیں جا کر چھپ جاتے ہیں اگر حملہ نہ ہوا تو واپس آ جایں گے اور اس طرح وہ حملے سے کچھ گھنٹے پہلے چھپتے چھپاتے وہاں سے نکل آے ۔راتوں رات چوری چوری صغراں شوہر اور بچوں کے ساتھ قریبی ہسپتال پہنچ گئے ۔وہاں موجود انگريز ڈاکٹر حشمت اللّه اور صغراں کو جانتا تھا ۔اس رات صغراں نے اس کے گھر پناہ لی اور حشمت کو تار بھجوایا ۔پر جب تک حشمت وہاں پہنچا حالات خراب ہو چکے تھے ۔ڈاکٹر فلپ، حشمت کی بیٹی اور اپنے خاندان کے ساتھ ایک فوجی چوکی میں پناہ لے چکا تھا ۔حشمت اللّه بھی بچتا بچاتا وہاں تک پہنچ گیا پر حالات کی خرابی کی وجہ سے وہاں سے نکل نہ پایا ۔آخر ایک دن لاہور جانے والے فوجی ٹرک میں ڈاکٹر فلپ کی سفارش سے انہیں جگہ مل گئی ۔کئی گھنٹوں کا سفر انہوں نے ٹرک میں اکڑوں بیٹھ کر بھوکے پیاسے طے کیا راستے میں کئی کنووں کے گرد لاشیں پڑی تھیں ۔غالب گمان یہی تھا کہ زہریلا پانی پینے سے ان کی موت واقع ہو گئی تھی ۔ہر طرف عجیب افراہ تفری اور بے چینی کا دور دورہ تھا کیوں کہ بہت سے سادہ لوح لوگوں کو تب تک واضح نہیں ہو سکا تھا کہ بٹوارہ کیسے ہو گا ؟ جو رہ جایں گے ان کے ساتھ کیا ہو گا ؟ انہیں رہنا چاہیے یا چلے جانا چاہیے ؟

خیر یہ تھے وہ سب حالات جن کی وجہ سے حشمت اللّه کو واپسی میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں موجود کسی موقع پرست نے موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور جعلی دستاویزات کے ذریعے بختاور اور اس کے بچوں کو کواٹر سے بے دخل کر دیا ۔

بختاور ایک بار پھر ،”بخت آور “،ثابت ہوئی تھی ۔

اس سارے قصے سے یہ فائدہ ہوا کہ بختاور کو اب اس ایک کمرے کے کواٹر کی قدر آ گئی تھی کہ اگر یہ چھت نہ ہو تو وہ اس شہر میں بلکل بے آسرا ہوں ۔

صغراں اپنے شوہر کے ساتھ ملتان کے نواح میں جا آباد ہوئی ۔کیوں کہ اس کے باقی سسرالی رشتہ دار بھی وہیں سکونت اختیار کئے ہوے تھے ۔

اور پھر اگست آ گیا ،خونی طوفان اپنے عروج کو جا پہنچا کچھ کو بہا لے گیا اور کچھ کو موجوں پر سوار کر کے یہاں وہاں پٹخ دیا ۔

بختاور نے اپنے تیسرے بیٹے کا نام سلطان رکھا کیوں کہ وہ لوگوں کو بتانا چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا اس کی طرح ،”بخت آور” ہے منحوس نہیں ۔اس کے بیٹے کے بخت ہی تھے جو حشمت زندہ سلامت اس طوفان سے نکل آیا اور ایک بار پھر انہیں رہنے کو چھت ميسر ہوئی تھی ۔حشمت باقی دونوں بیٹوں کے نام سے ملتا جلتا نام ،”احد “، رکھنا چاہتا تھا پر بختاور کی خوشی کے آگے اس نے ھتیار ڈال دیے تھے پھر بھی اکثر وہ سلطان کو احد کہہ کہ پکارتا ۔

کئی ہفتوں کی مسلسل مشقت کے بعد حشمت اللّه نے پٹوار خانے میں اپنی زمین اور گھر کے لئے درخواست دائر کر دی تھی ۔پر پہلے ہی دن در بدر ہوتے سوالیوں کو دیکھ کر وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا کہ یہاں سنوائی ہونا بے حد مشکل ہے۔ اور جلد سنوائی تو نا ممکن ہے ۔اس کا دل مایوسی میں گھر گیا تھا ۔عجیب گورکھ دهندا تھا ۔پھر بھی اس نے اللّه کا شکر ادا کیا کہ اس کے پاس سر چھپانے کا آسرا تو ہے ورنہ وہ بھی پٹوار خانے کے آس پاس اپنے خاندان اور سامان سميت کھلے آسمان تلے بیٹھا ہوتا ۔ہر صبح آنکھوں میں امید لیے سارا دن وہ لوگ پٹواری کے پیچھے پیچھے بھاگتے پھرتے پر شام ڈھلے جب امید بر نہ آتی تو آنکھوں کی جوت بجھنے لگتی ۔

بختاور روز اس سے پوچھتی کیا بنا گھر کا ؟کہاں اور کب ملے گی زمین ؟ وہ اس کے بھولپن کو دیکھ کر دکھی دل سے ہنس پڑتا ،”ہاں ہاں مل جائے گی ،مل جائے گی بس تم حوصلہ رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا “۔اب وہ اسے کیا بتاتا کہ وہاں تو اندھیر نگری چوپٹ راج والی بات ہے ۔اندھا بانٹے ریوڑی بار بار اپنے لوگوں کو ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بختاور کے سوال مدہم پڑ گئے گویا اب وہ بھی جان چکی تھی کہ ان تلوں میں تيل نہیں ۔

اس کی ہنسی اور بے فکری کو مایوسی کی دیمک نے چاٹ لیا تھا ۔

انہی دنوں ملتان سے تار آیا ۔صغراں کی وفات ہو گئی تھی ۔مليریا اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا تھا ۔سوگواران میں اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی ۔بیٹی کی شادی اس نے اپنی زندگی میں ہی کر دی تھی ۔

جو بھی تھا حشمت کے لئے یہ دکھ بہت بھاری تھا ۔اس کی سب سے پہلی اور بڑی بیٹی تھی وہ ۔باپ کا سب سے زیادہ خیال رکھنے والی ۔صغی کی موت سے حشمت کو چپ سی لگ گئی تھی ۔سردیوں کا آغاز تھا پر کواٹر میں سونے کی جگہ نہیں تھی ۔یہ موئی سردیاں کواٹر والوں پر بڑی بھاری گزرتی تھیں ۔گرمیوں میں تو سب مرد کھلے میں چارپائی ڈال کر سو جاتے تھے پر سردیوں میں بڑی مشکل ہو جاتی تھی کواٹر میں چارپائی ڈالنے کی جگہ ہی نہ بچتی ۔کچھ یہی حال حشمت کا بھی تھا ۔رات کے ابتدائی حصے میں ہی کورا گرنے لگا ۔سردی محسوس ہونے پر حشمت اپنا بستر لپیٹ کر اندر چلا گیا ۔اندر اس کی کل کائنات خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی ۔گیلا بستر زمین پر بچھاے وہ بھی نیند کی وادی میں جا پہنچا ۔صبح اٹھنے پر بختاور نے دیکھا کہ حشمت زمین پر بستر کئے اب تک سو رہا ہے اس کے دل کو دھچکا سا لگا۔اس نے حشمت کو جگانے کی کوشش کی پر حشمت حالت بیہوشی میں شدید بخار میں جل رہا تھا۔

پچھلے ایک ہفتے سے حشمت ہسپتال میں داخل تھا اور ہر گزرتا دن اسے موت سے قریب تر کر رہا تھا ۔پریشان حال بختاور سارا دن گھن چکر بنی گھر سے ہسپتال اور ہسپتال سے گھر گھومتی رہتی ۔اور پھر ایک دن حشمت اللّه اس دنیا کے دکھوں سے رہائی پا گیا ۔بختاور کی زندگی میں آنے والا وہ پہلا مرد تھا اس کی پہلی محبّت تھا اس کی کل کائنات تھا آج وہ مرکز ختم ہو چکا تھا بختاور بکھر گئی تھی ۔

حشمت اللّه کا جنازہ اٹھتے ہی گویا اسے ہوش آ گئی تھی۔ جیسے کوئی گہری نیند سے جاگ اٹھے اس نے فورا اپنے بچوں کو آوازیں دینی شروع کر دیں پل بھر میں سارے بچے اس کے گرد اکٹھے ہو گئے اس نے سارے بچوں کو ساتھ لیا اور اپنے کواٹر میں جا کر اپنا دروازہ بند کر لیا ۔سارا محلہ اسے قابل ترس نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔کچھ ہمسایوں نے دروازہ کھلوانا چاہا پر بختاور نے دروازہ نہ کھولنا تھا نہ کھولا ۔

اگلی صبح ابھی نوراں بچوں کو اسکول کے لیے تیار کر رہی تھی جب اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی پلٹ کر دیکھا تو چادر کی بكل مارے بختاور کھڑی تھی۔نوراں نے سوالیہ نظروں سے بختاور کو دیکھا ،”نوری آج بچے اسکول نہیں جایں گے تم انہیں ناشتہ کروا دینا”، بختاور نے التجائیہ لہجے میں نوراں سے کہا ۔نوراں نے نہ سمجھی سے گردن ہلائی اس نے حیرت سے بختاور کو دیکھا وہ کل رات والی بختاور تو کہیں سے نہیں لگ رہی تھی۔نوراں کی ساس نے بختاور کو دیکھا تو بولی ،”اے بختو! ذرا دھیان کر اب تو کلم کلی ذات ہے ایسے بے شرموں کی طرح دن دیہاڑے حاجت کو جاوے گی ؟عدت میں ہے تو ،کچھ تو خیال کر”۔ بختاور نے گہری سرد نظروں سے بڑھیا کو دیکھا اور قدم آگے بڑھا دیے ۔

اس کی منزل ہسپتال تھی ۔وہ جہاں جہاں سے گزری ہر حیرت زدہ نظر نے اس کا استقبال کیا ۔ہسپتال کے کلرک دفتر میں وہ منتظر تھی ۔حشمت اللّه ایک سليم فطرت شخص تھا ہر چھوٹا بڑا افسر اسے پسند کرتا تھا ۔اور اب بختاور کو اس کی بیوہ کی حیثیت سے وہاں دیکھ کر سب کو دھچکا لگا تھا ۔

بختاور ایک جوان جہان خوبصورت بیوہ اور چار بچوں کی ماں تھی، اب یہی اس کی پہچان تھی ۔اس بار حشمت اللّه سچ میں دم توڑ گیا تھا ۔۔۔۔بختاور کے سامنے اس نے گھر سے قبرستان تک کا سفر طے کیا تھا اب کوئی آنسو کوئی معجزہ اسے واپس نہیں لا سکتا تھا یہ حقیقت بختاور نے جنازہ اٹھتے ہی تسلیم کر لی تھی ۔وہ سمجھ گئی تھی کہ اب اس کی پہچان کیا ہے ؟ جنگ شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔بقا کی جنگ ۔۔۔۔۔اور یہ جنگ اسے اکیلے لڑنی تھی ۔شائد دو سال پہلے پیش آنے والے حالات اس تربیت کا حصہ تھے ۔اس نے سوچ لیا تھا دوبارہ ان حالات کا شکار نہ خود ہو گی نہ اپنے بچوں کو ہونے دے گی کیوں کہ وہ جان چکی تھی ،مان چکی تھی اب کوئی ،”حشمت اللّه “،اسے بچانے نہیں آنے والا ۔

اس بار جانے والا حشمت اسے مضبوط کر گیا تھا ۔بختاور نے ہسپتال سے ساری معلومات لے لی تھیں ۔اس نے ہسپتال میں ،”آیا”،کی بھرتی کے لئے درخواست دے دی تھی جسے منظور کر لیا گیا تھا۔پڑھی لکھی نہ ہونے کی وجہ سے اسے حشمت اللّه کی جگہ نوکری نہیں مل سکی تھی ۔پر اس کی اپنی قابلیت کی بنا پر اسے ،”آیا”،بھرتی کر لیا گیا تھا ۔اب کوئی بھی اس سے اس کے بچوں کی چھت نہیں چھین سکتا تھا ۔تنخواہ بھلے ہی کم تھی پر اب جو تھا ،جیسے تھا کی بنیاد پر اسے یہ جنگ لڑنی تھی اور جيتنی بھی تھی ۔

از قلم ،”عظمیٰ خرم “۔

جاری ہے…….. جاری ہے….. جاری ہے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button