لکھ یار
دھند………..آصف حسین
دھند” سچ کہوں تو دھند نے ہی دنیا نکھاری ہے. ہر اٹھتے قدم کی وجہ دھند ہے، ہر تلاش کے پیچھے دھند ہے. ایک حائل پردہ جو تمھیں اکساتا ہے پار جانے کے لئے تمھارے روحانی جسمانی تقاضوں سے اٹے وجود میں تحریک اسی ہی دھند کے باعث ہے بھوک میں خوراک سے دھند چھٹ جائے تو تم رک بیٹھ کھانا کھانے لگتے ہو. چاہنے چاہے جانے کا تقاضا ہے اور بنے سنوارے پھرتے ہو لکھتے ہو، گنگناتے ہو موثر لگنے کی کوشش کرتے ہو تاکہ کسی محبوب سے دھند چھٹ جائے اور جو چھٹ جائے تو سپردگیاں پیش کرتے ہو. دیکھو تحریک زندگی ہے اور تحریک دھند کے پار جانے سے پہلے کاوشوں اور کوششوں کا نام ہے. یہ دھند یہ ہے زندگی