ممتاز مفتی کی کتاب تلاش پر تبصرہ، محمد عمر مسعود
بہت سی کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کا انتخاب ہم کرتے ہیں لیکن کچھ کتابیں
ایسی ہوتی ہیں جو شاید ہمیں منتخب کرتی ہیں. ممتاز مفتی کی کتاب جس کا نام
تلاش ہے ان چند کتابوں میں سے ایک ہے. ممتاز مفتی صاحب اردو ادب کا ایک
بڑا نام ہے اور انہوں نے بہت سی کہانیاں اور افسانے لکھے. یہ کتاب تلاش ان
کی زندگی کی آخری کتاب تھی جو ان کے بقول ان سے زبردستی لکھوائی گئی
جو انہوں نے اپنی بیماری کے ایام میں لکھی تھی۔ یہ کتاب ابھی مکمل نہیں
ہوئی تھی کہ مفتی صاحب کی ہمت جواب دے گئی تھی اور وہ اسے ادھورا چھوڑ
دیناچاہتے تھے۔ لیکن معروف روحانی اسکالر پرفیسر احمد رفیق اختر (مفتی صاحب
کے حلقئہ احباب میں سے ہیں) نے زور دے کر مفتی صاحب سے یہ کتاب مکمل
کروائی۔ اور آج یہ کتاب اردو ادب میں ایک شاندار اضافہ ہے۔
مفتی صاحب کا انداز بیاں بہت ہی سادہ ہے. اپنی اس کتاب کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب نہ فلسفہ بگھارتی ہے نہ علمیت چھانٹتی ہے نہ دانشوریاں پیش کرتی ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ سنجیدہ اور مدلل مطالعہ کے خواہش مند ہیں تو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ یہ کتاب نہ پڑھیں، خواہ مخواہ وقت ضائع ہوگا.
اس کتاب میں وہ ایسے سوال اٹھاتے ہیں جن کو ہم محض اس لیے نظر انداز کر
دیتے ہیں کہ یا تو ہم پہلے سے جانتے ہیں یا جان کر بھی کیا کریں گے مثلاً
اسلام کیا ہے؟
کیا اسلام ایک مذہب ہے یا ریچوالز کا نام ہے یا یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے؟
مسلمان کون ہوتا ہے؟ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا یا مسلمانوں والا
نام رکھ لینے سے، حلیہ اپنا لینے سے یا کسی اور بھی چیز کی ضرورت ہوتی ہے؟
یہ سوال دراصل وہ خود اپنے آپ سے پوچھ رہے ہیں.
اس کتاب میں وہ ان لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم
جانتے ہیں اور جو وعظ و نصیحت کو اپنا حق سمجھتے ہیں ان سے مراد وہ مولوی
اور علما ہیں جو اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے مذہب کو محض استعمال
کرتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں اللہ کی رحمت و محبت کی بجائے ڈر و خوف
پیدا کرتے ہیں. وہ اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو.
اس کتاب کی ایک خوبصورت بات جو پوری کتاب میں نظر آتی ہے وہ ہے قرآن اور اس کی سپرٹ کو سمجھنا. مفتی صاحب یہ بات سمجھاتے ہیں کہ قرآن گلاب کے پھول کی مانند ہے. اوپر کی پتی اٹھاؤ تو نیچے سے ایک اور پتی نکل آتی ہے. نچلی پتی اٹھاؤ تو اس کے نیچے ایک اور پتی. پتی کے نیچے پتی. ایسے ہی قرآن پاک میں مفہوم در مفہوم ہیں. جتنا غور کرو اتنا گہرا مفہوم لیکن وہ کہتے ہیں ایک مخصوص طبقے نے صرف اوپر کے مفہوم کو ہی حتمی اور آخری مفہوم سمجھ لیا ہے کوئی اس کی تلاوت سے صرف ثواب کمانا چاہتا ہے اور کوئی اس کی آیتوں اور وظائف سے اپنا مقصد حاصل کرنے میں مصروف ہے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس کے اصل مفہوم سے آشنا ہیں.
اس کتاب میں مفتی صاحب موجود دور کے کچھ چیلنجز اور غلط فہمیوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں اور مختلف حقائق و واقعات کی روشنی میں یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ آج کے دور میں اللہ کی کتاب اور رسول صل اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی ہمارے مسائل اور پریشانیوں کا مداوا کر سکتی ہے. ہماری زندگی کا سفر بھی تلاش ہے وہ تلاش جس کی کوئی منزل نہیں انسان تلاش کرتے کرتے اس دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اگر اس تلاش کے سفر میں اللہ کی کتاب کو ساتھی بنا لیا جائے اس سے رہنمائی حاصل کی جائے تو آنے والی مشکلات و مسائل سے نمٹنا آسان ہو جاتا ہے اور راہ راست سے بھٹکتا بھی نہیں ہے. اللہ مفتی صاحب کو اجر عظیم عطا فرمائے آمین