پورے چاند کی رات – ازقلم ثمرین ملک
میں چھت پر لیٹا انگلی سے چاند کے گرد دائرے بنا رہا تھا ۔پہلا ،دوسرا ، تیسرا۔۔۔۔اور ہر دائرے کے ساتھ میرا گزرا ہوا ہر پل آنکھوں کے سامنے گھومتا جا رہا تھا۔
وہ میرا پہلا پیار نہیں تھی شادی کے بعد بھی مجھے دو دفعہ پیار ہو چکا تھا اور میں ان سب میں سچا عاشق تھا۔میری زندگی کی ۲۹ بہاریں گزر چکی تھیں تبھی اچانک ایک دن میرے گھر کے دروازے پہ وہ آ کھڑی ہوئی شوخ چنچل زندگی سے بھر پور وہ چہرہ جو پہلی نظر میں ایسا تاثر نہیں دیتا کہ نظریں ٹک جائیں مگر بھولا نہ جا سکے۔دبلی پتلی دراز قد بھوری آنکھیں بال کھلے لال رنگ کے کپڑے پہنے دروازے میں کھڑی مجھ سے مخاطب ہوئی۔
ارے آپ نے پہچانا نہیں مجھے ¿
جب انگلی سے دائرے بنا بنا کہ تھک گیا تو اٹھ کر سگریٹ سلگا لیا اور کش لےکر ہوا میں دھوئیں سے دائرے بنانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے دوسری ملاقات ایک شادی میں ہوئی اور پھر ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب آتے گئے حالانکہ عمر میں کم از کم دس سال چھوٹی تھی مگر اتنی شدت تھی اس کی محبت میں کہ میں سب کچھ بھول کر اس کے طلسم میں کھو گیا۔۔
پہلی بار لگا کہ زندگی میں کسی کو پانا اتنی خوشی دے سکتا ہے اس کا ساتھ میرے لئیے سکون کا باعث تھا اسکی بےتکی باتیں اور اس کی آنکھوں میں میرے لیے جھلکتا پیار دیکھ کر کبھی کبھی خوف آنے لگتا کی کیا میں واقعی اس پیار کے قابل ہوں۔
سگریٹ کا آخری کش لے کے میں نے جلتا سگریٹ گلی میں پھینکا اور اٹھ کر ٹہلنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
میرے لیئے اس کی دیوانگی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔دنیا کی پرواہ کیے بغیر وہ ہر لمحہ میرے ساتھ گزارنا چاہتی تھی اور میں اس کی محبت کی شدت سے ڈرنے لگا تھا میں اس سے کہتا کہ تم شادی کب کر رہی ہو وہ غصے سے میری طرف دیکھتی اور کہتی جس دن تم کہو اسی دن بھاگ چلیں گے۔
آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا اور اس کی دیوانگی بھی وہ کہتی میں بس تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں چاہے کسی بھی حال میں رکھو اور میں چاہ کر بھی اس کو نہیں اپنا سکتا تھا میں دوسری شادی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میری بیوی کا بھائی میرا بہنوئی بھی تھا اسی مجبوری کے تحت میں نے شادی کی تھی اب اگر میں شادی کرتا تو میری بہن کا گھر بھی برباد ہو جاتا اور ویسے بھی سب کی نظروں میں میں ایک شریف النفس انسان تھا اور میں اپنی ساکھ خراب نہیں کرنا چاہتا تھا تبھی تو اب تک کا ہر معاشقہ بڑی خوبصورتی سے بگڑنے سے پہلے ختم کر دیتا تھا مگر اس بار دل بے ایمان ہوتا جا رہا تھا۔ میں دن رات سوچتا کہ کیا کروں اس کو بھی ختم کرنا مشکل نہیں تھا مگر میں دماغ سے نہیں دل سے سوچنے لگا تھا ۔
میں جانتا تھا کہ اس کے گھر والے اس کی یہ بغاوت کبھی قبول نہیں کریں گے۔اسی لیئے میں نے اس سے ملنا کم کر دیا اور یہ میرے لئیے بھی اتنا ہی اذیت ناک تھا جتنا اس کے لئیے مگر یہی درست تھا اور وہی ہوا جیسا میں نے سوچا تھا وہ اس دوری کو برداشت نہیں کر سکی۔۔۔۔!!!
ٹہلتے ٹہلتے میں دیوار کے پاس رک گیا ہماری گلی سے بارات گزر رہی تھی رنگ برنگے میکپ سے لت پت لڑکیاں پکی عمر کی عورتیں ہنستے کھلکھلاتے گزر رہی تھیں۔۔۔۔۔
اس نے ایک زور دار قہقہ لگایا اور بولی تمہیں کیا لگتا ہے تم مجھ سے ملنا چھوڑ دو گے اور میں بہل جاؤں گی نہیں یہ بھول ہے تمہاری جب تک میری سانسیں ہیں تب تک میں تمہیں خود سے الگ نہیں ہونے دوں گی۔
مگر تم سمجھتی کیوں نہیں جو تم چاہتی ہو وہ نہیں ہو سکتا۔۔۔میں نے اسے غصے سے کہا
کیوں آخر کیوں تم حقیقت سے منہ موڑ رہے ہو کیوں مجھ پر اور خود پر ظلم کر رہے ہم دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں جی سکتے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے گالوں پہ بہہ رہے تھے اس کی آنکھوں کا کاجل پھیل چکا تھا اور وہ ایسی لگ رہی تھی جیسے ایک رانی اپنا سب کچھ ہار چکی ہو۔
تبھی میں نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکا۔۔اور انتیہائی درشت لہجے میں کہا کی آج کے بعد ہم ایک دوسرے کے لئیے اجنبی ہیں سنا تم نے ۔بھول جاؤ کہ میں کبھی تم سے ملا تھا۔اور یہ کہتے ہی میں جلدی سے اٹھ کر ریسٹورنٹ سے باہر نکل گیا کیونکہ اگر میں ایک پل بھی اور ٹھر جاتا تو شاید پھر کبھی اسے اکیلا نہ چھوڑتا۔
تیز تیز قدموں سے چلتا میں پارکنگ تک آیا اور بائیک سٹارٹ کر کے مین روڈ پہ نکل آیا رات تک ادھر ادھر آوارہ گھومتا رہا اور سوچتا رہا کہ میرے جانے کے بعد اس نے کیا کیا ہو گا۔ آخر تھک ہار کر گھر لوٹا بائیک کھڑی کر اندر گیا۔ کھانا کھا کر سگریٹ کی طلب ہوئی تو بستر سے اٹھنے لگا تبھی بیگم کمرے میں آئی اور کہا “سنا آپ نے وہ اپنے ماسٹر صاحب کی بیٹی پاگل ہو گئی ہے خود کشی کی کوشش بھی کی عجیب عجیب باتیں کر رہی تھی کہ مت جاؤ دنیا میں کچھ نہیں ہے رک جاؤ۔
مجھے تو لگتا ہے کوئی سایہ ہو گیا ہے اس پر بنی سنوری پھرتی تھی نہ پورے چاند کی رات کو کوٹھے پر گئی ہو گی اسے لئیے سایہ ہو گیا اس پر میں سب سن کر چھت پر آیا اور لیٹ گیا۔