کتاب : تلاش
باب 10 : گلاب کا پھول
ٹرانسکرپشن : فبیہا احمد
شیرے کی انگلی
تذکرہ غوثیہ سے مروی ہے کہ ابلیس کے ایک دوست نے ابلیس سے کہا : یار ! تو تو بڑا سیانا ہے، بڑی سمجھ والا ہے، تونے یہ حماقت کیوں کی؟
کون سی والی؟ ابلیس نے پوچھا۔
بولے انسان کو سجدہ نا کیا، بڑی سرکار کی حکم عدولی کی۔ ابلیس ہنس کر کہنے لگا : ” سبھی اس بھید کو جانتے ہیں، پھر بھی سبھی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ “
دوست نے پوچھا، کس بھید کی بات کر رہے ہو ؟ ابلیس نے کہا، سبھی جانتے ہیں کہ اس کائنات پر صرف بڑی سرکار کا حکم چلتا ہے۔ کسی میں دم مارنے کی سکت نہیں۔ کوئی حکم عدولی نہیں کرسکتا۔ جو کرتا ہے وہ بھی اللہ کی ایما پر کرتا ہے۔ میری کیا مجال تھی کہ میں حکم عدولی کرتا۔ صرف انسان واحد مخلوق ہے جسے حکم عدولی کی توفیق عطا کی گئی ہے۔ بڑی سرکار کا لاڈلا ہے نا اس لیے۔ ہم فرشتے تو حکم کے پابند ہیں۔
ابلیس نے اپنے دوست سے کہا آؤ میں تمہیں تماشا دکھاؤں، یہ سامنے چھوٹی سی بستی جو ہے، اسے دیکھو۔ حکم ہے کہ آج یہ بستی تباہ ہو جائے گی۔ دوست نے دیکھا کہ بستی کے بازار میں حلوائی نے بڑے سے چولہے پر کڑاہی رکھی ہوئی تھی جس میں چاشنی پک رہی تھی۔
ابلیس بولا لو تماشا دیکھو، یہ کہہ کر اس نے چاشنی سے ایک انگلی بھرکر دیوار پر لگا دی۔ چاشنی کی بو سونگھ کر مکھیاں آ گئیں، مکھیوں کو دیکھ کے چھپکلی نے تاک لگائی۔ کڑاہی کے قریب بلی بیٹھی تھی۔ بلی چھپکلی پر جھپٹی، اتفاق سے ایک فوجی ادھر آ نکلا۔ اس کے ساتھ شکاری کتا تھا۔ کتے نے بلی کو جھپٹتے دیکھ کر اسکو جا دبوچا۔ بلی اپنا توازن برقرار نا رکھ سکی اور حلوائی کے کڑاہے میں جا گری۔ حلوائی کو غصہ آیا اس نے کتے کو ایسا کفچہ مارا کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ سپاہی نے حلوائی کو پکڑ کر مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔ اس پر محلے والے نکل آئے اور انہوں نے سپاہی پر حملہ کر دیا۔ سپاہی کی پٹائی کی خبر لشکر میں پہنچی تو وہ گولا بارود لے کر آگئے اور بستی کو تباہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر ابلیس نے اپنے دوست سے کہا، دیکھا تم نے، میرا قصور تو اتنا تھا کہ چاشنی کی انگلی دیوار پر لگائی، باقی بکھیڑا کس نے کیا؟ لیکن کرنے والے کا نام کوئی نہیں لیتا۔ لوگوں نے بس مجھے ہی نشانا بنا رکھا ہے۔
صاحبو ! ایک بہت بڑا گھپلا ہوگیا ہے، بہت بڑا بھید کھل گیا ۔ روز بروز کھلتا جارہا ہے کہ یورپ اور امریکا کے پڑھے لکھے سمجھدار لوگوں نے جان لیا ہے کہ مستقبل قریب میں اسلام کے سوا کوئی مذہب قابل قبول نا ہوگا۔ جوں جوں لوگ تعلیم یافتہ ہوتے جا رہے ہیں جوں جوں سائنسی تحقیق ترقی کرتی جا رہی ہے، توں توں یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ مذہبی توہمات کے اس بے پناہ جنگل میں صرف اسلام ہی ایک جائے پناہ ہے۔ یہ بات تو عرصہ دراز سے سامنے دھری تھی مگر ہمیں نظر نہ آئی، پتہ نہیں ایسے کیوں ہوتا ہے کہ سامنے دھری نظر نہیں آتی۔