کتاب : تلاش
باب 12 : دشمنی یا خوف
ٹرانسکرپشن : رضوانہ رائے
اطمینان اور کھونٹی
صرف پروفیسر گارودی کی ہی بات نہیں۔ مغرب میں بے اطمینانی کی فضا عام ہے۔ لوگوں کو زندگی کی تمام سہولتیں میسر ہیں، عیاشی کے تمام سامان حاصل ہیں، اس کے باوجود ایک بے نام سا احساس محرومی ہے۔ دل کا اطمینان نہیں، سکون نہیں، فرصت نہیں، فراغت نہیں، ایک بے چینی، بے کلی، بے اطمینانی لگی ہے، حرکت کا ایک ریلہ چل رہا ہے، اک دوڑ لگی ہوئی ہے، بے مقصد دوڑ، بے منزل حرکت۔
پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اگر کوئی کھونٹی نہیں جس پر آپ خود کو ٹانگ سکیں، تو سکون حاصل نہیں ہوتا۔ ایک بے نام، بے چینی لگی رہتی۔
مغرب میں بہت سے لوگ مادی زندگی سے اکتا کر مذہب کی اہمیت کو محسوس کرنے لگے ہیں اس لئے وہ مذہب کی طرف رجوع کر رہے ہیں لیکن مغرب کے مروجہ مذہب اتنے کھوکھلے اور بے ہنگم ہیں کہ وہ جدید انسان کے لئے قابل قبول نہیں۔
عیسائیت کو کوئی صاحب عقل تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں، آج کی دنیا میں جب، سائنسی تحقیق اس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ نر اور مادہ کے ملاپ کے بغیر بچہ جنم لے سکتا ہے۔
اہل یہود کے مذہبی مطالبات تو بالکل قابل قبول ہیں۔ مغرب میں بہت سے لوگ، تمام مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے کے خواہاں ہیں۔وہاں کی لائبریریوں میں اسلام کے سوا، تمام مذاہب کے بارے میں مکمل معلومات دستیاب ہیں۔ پتہ نہیں کیسے یہودی راہبوں اور عیسائی پادریوں نے اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کا ایسا جال بچھا دیا ہے کہ اہل مغرب اسلام کو مذہب سمجھتے ہی نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمان متعصب لٹیروں کا ایک ٹولہ ہیں، جسے اخلاق سے قطعی طور پر کوئی تعلق نہیں۔
اس بات پر لوگ اس حد تک یقین رکھتے ہیں کہ انہیں اسلام کے متعلق جاننے کی کبھی خواہش پیدا نہیں ہوئی۔
مغرب کے وہ تمام لوگ جنہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا ہے، اسلام کے ابتدائی اصولوں کو جان کر حیرت زدہ ہو گئے اور انہوں نے اسلام کو قبول کر لیا۔