کتاب : تلاش
باب 13 : انوکھا شہنشاہ
ٹرانسکرپشن : شبانہ حنیف
اختیار ، بے اختیاری
صاحبو ہم سب کا یہ ہی حال ہے۔ دیکھنے میں ہم نارمل لگتے ہیں ، لیکن ہر شخص کے ذہن میں ایک گھنڈی موجود ہے۔ جب وہ اثر انداز ہوتی ہے توہم پر ایک دیوانگی طاری ہو جاتی ہے جس کے تحت ہم کوئی ایسا کام کرجاتے ہیں جو ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا۔ یہ گھنڈی جب طاری ہوتی ہے توہم پر ایک وحشت سوار ہو جاتی ہے۔ ہم اپنے بس میں نہیں ہوتے۔ ہمارا کنٹرول سسٹم اختیار میں نہیں رہتا۔
یہ گھنڈیاں ہمیں ورثے میں ملتی ہیں۔ کوئی گھنڈی ماں سے مل گئی ، کوئی باپ سے ، کوئی دادا پردادا سے۔ صاحبو ! میری دانست میں سیدھی بات ہے کہ جو بات ہماری مرضی کے باوجود عمل می آۓ ، ہم پر اس کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی، اس لئے وہ جزا اور سزا سے مبرّا ہونی چاہیے۔
جزا سزا کے اصول قائم نہیں کئے جا سکتے۔ انصاف اصول پر مبنی نہیں ہو سکتا۔ وہ ایک منفرد مسئلہ ہے۔ ہر شخص کے لئے انصاف الگ ہوگا۔
سیانے کہتے ہیں ہم تقریباً نوے فیصد Predestined ہیں۔
پیدا کرنے سے پہلے ہمیں پوچھا نہیں جاتا کہ میاں کس گھرانے میں پیدا ہونا پسند کروگے؟ امیر کے گھر ، غریب کے گھر میں یا مڈل کلاس کے گھر میں۔ مسلمان کے گھر میں ، عیسائی کے گھر میں یا دہرئیے کے گھر میں۔ ہمیں اپنی موت کے بارے میں علم ہوتا ہے نہ شادی کے بارے میں اور نہ ہی اولاد کے متعلق۔
زندگی میں بیشتر واقعات Predestined ہوتے ہیں۔ صرف چند ایک ہمارے اختیار میں ہوتے ہیں۔ یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ واقعات جو اختیار میں آتے ہیں، وہ واقعی ہمارے اختیار میں ہوتے ہیں۔ ممکن ہے وہ بھی اختیاری نہ ہوں اگرچہ ہمیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ اختیاری ہیں ۔