لکھ یار

ممتاز مفتی

از حنا خانزادہ

ممتاز مفتی سے میرا پہلا تعارف تب ہوا تھا جب میں پانچوں جماعت میں تھی لگ بھگ ٢٠٠٤ کی بات ہوگی۔ جب ممتاز 1مفتی کو رخصت ہوئے بھی ٩ سال گزر
چکے تھے(تاریخ رخصت بھی ابھی لکھتے وقت گوگل کی ہے)
پہلا باقاعدہ تعارف روغنی پتلے تھا۔پر یہ بھی حقیقت ہے مجھے ممتاز مفتی کے لفظوں کی سمجھ ٢٠١٤ سے پہلے ککھ بھی نہیں آئی پر یہاں بات ختم نہیں ہوتی۔کیونکہ وہ ممتاز مفتی تھا اور ہے جو لوگوں کو (قاری کو) پہلے روز کہہ دیتا ہے میرے پاس کچھ بھی نہیں اور گن گن کر سارے زمانے کی برائیاں بتاتا ہے یہ برائی بھی مجھ میں ہے اور یہ برائی بھی مجھ میں ممتاز مفتی یہیں نہیں رکتا وہ آپ کو اک اونچے سنگھاسن پر بیٹھا کر آپ کی اتنی خوبیاں بیان کرتا ہے کہ آپ کو اپنی اچھائی پر یقین آجاتا ہے اور پھر دروازے کی راہ بھی دکھاتا ہے کہ دیکھو اپنی راہ نہ کھوٹی کرو سیدھی سادی زندگی گزارو
مفتی جی میرے لیے کوئی بابا ،بزرگ یا حیات سے گزر جانے والے شخص نہیں ہیں وہ اک دوست جیسے ہیں جو آپ جناب کے تکلفات سے آزاد ہے اور جیسے دیکھ کر میں بے ساختہ کہہ اٹھتی ہوں تم بھی ہو یہاں ۔ جیسا کہ میں عرض کر چکی ہوں لفظوں کی سمجھ تو مجھے آتی نہیں تھی کہ ممتاز مفتی لکھتا کیا ہے کہ مفتی جولائے کی مانند بیٹھتا ہے بالکل فرصت سے پر کبھی پرائی محنت سے سلجھی ڈور ہاتھ میں نہیں لیتا بلکہ خود سوت کاتتا ہے الجھی ڈور کا سرا تھام کر اسے سلجھاتا ہے ساتھ ساتھ شور بھی ڈالتا ہے کہ یہ کیا ہے پر لہجے میں اتنی اپنائیت ہوتی ہے کہ جی چاہتا ہے شور بھی مسلسل ہو کہانی سے زیادہ کرداروں پر محنت کرتا ہے اتنی محنت کہ میں جو کہانی سے باہر بیٹھی ہوتی ہوں سر جھکا کر ہر بار ممتاز مفتی کے پیچھے چلنے لگتی ہوں اور پھر سارے کردار آئینہ ہونے لگتے ہیں جن میں میرا چہرا ہوتا ہے۔
اور آج میں ١٢ سال سے ممتاز مفتی کو پڑھنے کے بعد ممتاز مفتی کے لفظوں سے دنیا کو دیکھنے کے بعد میں آسانی سے کہہ سکتی ہوں ممتاز مفتی کے لفظ بھلے نہ سمجھ آئیں پر ممتاز مفتی آپ کے لاشعور میں چوکھڑی مار کر بیٹھ جاتا ہے آپ اس کی طرح سوچنے لگتے ہو
پر اب بھی کوئی ممتاز مفتی کی کتاب لے کر بیٹھتا ہے تو میں کہتی ہوں نہ کرو ایسا لوگ کہتے ہیں یہ بابا ہے یہ بابا نہیں ہے یہ دوست بن کر بیٹھ جائے گا اور پھر آگے آگے چلنا شروع کر دے گا اور پھر اک خرابی یہ ہو گی نام بھلے جو بھی ہو سوچے گا ممتاز مفتی ہی
خدا ممتاز مفتی کے لیے ویسے ہی خوبصورت مقامات رکھے جیسے انہوں نے خوبصورت سوچنا سکھایا

 

Related Articles

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button