کتاب : تلاش
باب 6 : یہ خدا ، وہ خدا
ٹرانسکرپشن : سعدیہ درانی
دے ، دے دینا سیکھ
پھر وہ نوجوان لڑکا ہے ۔ کروڑ پتی کا بیٹا ہے، اکلوتا بیٹا۔ وہ آکر اپنا رونا روتا رہتا ہے۔
کہتا ہے ” اللہ نے ایک سبز پوش بوڑھا میرے پیچھے لگا رکھا ہے ۔ میری زندگی عذاب بنی ہوئی ہے۔ دو پاٹوں میں میں پس رہا ہوں ۔ میرا گھر امارات سے بھرا ہوا ہے لیکن گھر میں سبھی لینے کی بات کرتے ہیں ۔ یہ بھی لے لو، وہ بھی لے لو۔ کوئی دینے کی بات نہیں کرتا ۔ میرے گھر میں دینے کی بات کرنا گناہ ہے ۔ لیکن جب بھی میں سونے کے لئے آنکھ بند کرتا ہوں، تو وہ سبز پوش بڈھا آجاتا ہے ، کہتا ہے ، پتر دے، دینا سیکھ ۔ دینا بہت بڑا پن ہے ۔ اللہ کو دینا بہت پسند ہے ۔ تیرے پاس دو روپے ہوں تو ایک کسی کو دے دے ۔ دو کپڑے ہوں تو ایک کسی کو پہنا دے ۔ پتر دولت بری نہیں ۔ کما جتنی جی چاہے کما لیکن اس لئے کما کہ اسے دوجوں میں بانٹ سکے۔ بانٹتا جا ، بانٹتا جا۔”
جو بھی آتا ہے ، اللہ کے خلاف شکایت سے بھرا ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں، یا اللہ ! ایسا کیوں ہے ؟ کوئی تیرا شکر گزار نہیں ۔ جسے کم دیا ہے ، وہ بھی شاکی ہے۔ جسے اتنا کچھ دے رکھا ہے ، وہ بھی شاکی ہے ۔
جواب میں وہ مسکرا دیتا ہے ،مسکرائے جاتا ہے ۔ میں پوچھتا ہوں، یا اللہ ! یہ کیا بھید ہے کہ قدرت کے تمام مناظر ، دریا، پہاڑ، سمندر، وادیاں تیری عظمت اور ہیبت سے لرز رہے ہیں۔ تمام چرند پرند تیرے احکامات کے تابع ہیں ۔ کسی میں بھی ہمت نہیں کہ تیرے سامنے دم مار سکے لیکن تیری یہ مخلوق جسے انسان کہتے ہیں ، تیری شکایت کرتی ہے۔ گستاخیاں کرتی ہے ۔حکم عدولیاں کرتی ہے اور تجھے غصہ نہیں آتا۔ تیرا دل نیلا نہیں ہوتا ۔ تو مسکراتا رہتا ہے ۔ اے قادر مطلق! مجھے بتا یہ کیا بھید ہے ؟ کیوں تو نے اسے سر چڑھا رکھا ہے ۔بول یہ کیا بھید ہے ؟