غروب آفتاب……….عالیہ سعید بلوچ
سارا دن حکمرانی کرنے والاسورج ڈوبنے کیا لگتا ہے کہ ساری کائنات رخصت کے انتظام میں لگ جاتی ہے -پرندے اپنی آوازوں میں چہ مگوئیاں کرتے ہیں -درختوں کے پتے “ہم کیا کریں ” کے انداز میں لا پرواہی سے ہلنے لگ جاتے ہیں -اور سورج موت کو سامنے دیکھ کر سرخ ہو جاتا ہے -اور اپنے بچے ہوئے خوابوں کا خون آسمان کی طرف اچھا ل دیتا ہے کہ شاید کچھ مہلت مل جائے – لیکن خوابوں کی موت تو ہمیں بھی مار ڈالتی ہے نا ؟ تو سورج کی موت بھی یقینی ہو جا تی ہے- بعد میں ہزاروں بار سورج نکلے ‘ہزارہا دن آئیں پر یہ دن تو نہیں ہوگا نا؟آج کا سورج تو جا رہا – قیامت برپا ہونے لگتی ہے اندر -اور سورج….. وہ جس سورج کو سارا دن اپنے آپ سے فرصت نہیں ملی تھی جو مجھ سے لاپرواہ لگتا تھا اچانک مجھ سے سرگوشی کر اٹھتا ہے ساری کائنات کی بے پروائی کو چھوڑ تو بتا تو نے کیا فائدہ اٹھایا مجھ سے ؟ بولو ارے بولتی نہیں ؟ میری بدحواسی کو دیکھ کر شاید ترس آ جاتا ہے اسے- اچھا چل کیا یاد کرے گی مت بتا . پر یاد رکھنا حساب تو دینا پڑے گا – یہ کہہ کر وہ تو شفق کے پار چلا جاتا ہے میری قیامت میرا پیچھا نہیں چھوڑتی اسی لیے اچھا ہے کہ اب وقت نہیں ملتا -اچھا ہے کہ میں ڈوبتا سورج نہیں دیکھتی –