کتاب : تلاش
باب 5 : آٹے میں پانی، دودھ میں سفیدی
ٹرانسکرپشن : سیدہ حنا حسین
جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے
چچا کی بات پر سوچتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس زاویے سے میں نے کیوں نہ سوچا ؟ بات تو سامنے دھری تھی ، پھر میری توجہ اُدھر کیوں نہ منعطف ہوئی ؟ ہمارے تمام رسم و رواج ، طور طریقوں، رہن سہن میں اللہ گھسا بیٹھا ہے۔
بچہ پیدا ہوتا ہے تو بسم اللہ کہہ کر اسے” گڑھتی” چٹاتے ہیں۔ پھر اس کے کان میں اذان دیتے ہیں۔ صاحبو : یہ اذان ظاہری طور ایک معصوم سا بلاوا ہے کہ “ آؤ اللہ کے حضور سر بسجود ہو جائیں” بڑی پر اثر چیز ہے۔ کانوں سے دل میں جا بیٹھتی ہے۔ ہمارے اندر کوانڈے کی طرح پھینٹ کر رکھ دیتی ہے۔ جبھی تو غیر مسلموں کی نظر میں بڑی خطرناک چیز ہے ۔ سکھوں کو علم ہے کہ اذان کان میں پڑے تو کانوں میں انگلیاں ڈال لو اور بھاگ کر کسی محفوظ مقام پر پہنچ جاؤ تاکہ اذان کی آواز سنای نہ دے۔
یہاں اسلام آباد میں کچھ سفارت خانے ایسے ہیں جہاں اذان سننے کی ممانعت ہے۔ ایک سفیر صاحب سے پوچھا گیا کہ اپ اذان سے کیوں خائف ہیں؟ بولے “ پتا نہیں کیوں؟ لیکن اذان کی اواذ سُن کر مجھ پر وحشت طاری ہو جاتی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ کئ غیر مسلم بادشاہوں نے اذان پر پابندی لگا رکھی تھی ۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا ۔ بہر صورت یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے تمام رسم و رواج میں اللہ یوں رچا بسا ہے جیسے دودھ میں سفیدی ۔ اور صاحبو، ایک بات کہہ دوں آپ سے ، آپ اسے پلے باندھ لیجیے کہ اللہ کی ایک خصلت یہ بھی ہے کہ جہاں بیٹھ گۓ ، پھر آپ ہزار کوشش کر دیکھیں ، وہاں سے نکلیں گے نہیں۔