تحریرمحمد زیشان مسعود ……… ممتاز مفتی ہماری نظر میں
یہ حسن اتفاق ہےکہ آج سے پورے آٹھ سال پہلے کی بات ہے ۔ یہی فروری کے دن تھے میری ان دنوں سائنس اور ٹکنالوجی کی کتابوں سے کافی وابستگی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ بابا اشفاق صاحب کے قلم کا بھی کافی مداح تھا اور ان کی تحاریر میں مختلف جگہ پر مفتی کا ذکر ہوتا تھا۔ ایک دن میرے ایک دوست نے مجھے “تلاش” پڑھنے کا مشورہ دیا کیونکہ ان دنوں میں مولوی صاحبان کے لیئے کچھ اچھی رائے نہ رکھتا تھا۔ اس نے کہا کہ تم یہ کتب پڑھو تمہارے یہ نظریات کافی شفاف اور واضح ہو جائیں گے۔ خیر لائبریری گیا “تلاش” کی تلاش کی اور اپنے ساتھ لے آیا آ کے جب اس میں یہ پڑھا کہ “میرا مشورہ ہے کہ آپ یہ کتاب نہ پڑھیں” تو میں نے ان کی بات مانی اور کتاب کو ایسے ہی رکھ دیا۔ کچھ دنوں بعد ایک دن جب کافی مصروفیت بھرے دن کے بعد تھکا ہارا کمرے میں آیا بیڈ پہ لیٹا کرنے کو کچھ نہ تھا اس لیئے سوچا کہ چلو یہی پڑھتا ہوں کہ کچھ وقت گزاری ہی ہو جائے گی۔ کتاب اٹھائی اور الفاظ پہ نظر دوڑاتا گیا، چلتا گیا اور چلتا گیا کہ اچانک کچھ عجیب چیز پڑھنے کو ملی۔ “جاننے کے اعتبار سے چار قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو جانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں” سمجھ نہ آنے کی وجہ سے پھر پڑھا “جاننے کے اعتبار سے چار قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو جانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں دوسرے وہ جو جانتے ہیں اور نہیں جانتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں تیسرے وہ نہیں جو جانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے ہیں چوتھے وہ نہیں جو جانتے ہیں اور نہیں جانتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے ہیں”۔ یہ پڑھتے ہی ششدر سا ہو کے رہ گیا کتاب بند کر کے ایک طرف کر دی اور خود سوچ میں گم ہو گیا کہ میں ان میں سے کس نمبر پہ پورا اترتا ہوں؟ ان ہی دنوں میں ایک کتاب پڑھی تھی جس میں پڑھا تھا کہ اپنے آپ کو جان لینا بہت بڑی نعمت کی علامت ہے۔ بہت دیر سوچنے کے بعد جب اپنے آپ کو کسی نمبر پہ فٹ نہ کر سکا تو دوبارہ اس خیال سے کتاب کھول لی کہ جس نے مجھے اس مد و جذر میں ڈالا ہے نکلنے کا راستہ بھی اسی سے پتہ چلے گا پھر پڑھنا شروع کیا اور پڑھتا گیا۔ ہر پیرا کے ساتھ یہی لگا کے یہ میری بات ہی ہو رہی ہے”میں اللہ سے ڈرتا ہوں، مجھے اس کے حکم کے لیئے دلیل چاہیئے، قران صرف مسلمانوں کے لیئے ہے۔۔۔۔”۔ مکمل کرنے کے بعد میرے بہت سے شک یقین میں، یقین مزید پختگی میں بدل گئے۔ بہت سے نظریات معدوم جبکہ بہت سے ارتقا کی ابتدا ہو گئے۔ اس “تلاش” نے مجھے ایک نئی تلاش دی۔ میری تلاش اپنی ذات کی تلاش جو کہ میں سمجھتا ہوں کسی بھی انسان کے لیئے بہت ضروری ہے کیونکہ اپنے آپ کو جانے بغیر آپ کسی دوسرے کو کبھی نہیں جان سکتے۔ میں شکر گزار ہوں اس کا جس نے مجھے “تلاش” کا مشورہ دیا، ممتاز مفتی کا جنہوں نے اپنی”تلاش” کے ذریعے مجھے میری تلاش دی جو آج تک جاری ہے اور تقریبا تکمیل کے نزدیک ہے اور اس تکمیل کے لیئے میں نے پھر “تلاش” کا مطالعہ شروع کیا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کے میری تلاش کی تکمیل میں میری مدد فرمائے اور مفتی صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین