لکھ یار
ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ………….مریم عرفان
تیری چاہت کا احساس ہوتے ہی کائنات رنگوں میں ڈھلتی محسوس ہوئی قوسِ قزح کے خوبصورت رنگ محبت میں گندھے ہوئے اور ہر رنگ انوکھے انکشافات کرتا ہوا بارش کی ٹپ ٹپ سرگوشی کرتی ہے تو کبھی ہوائیں سرگوشیاں سناتی ہیں کبھی بادل مختلف ہیولوں میں سامنے ہوتے ہیں تو کبھی خاموشی بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کبھی ہجوم میں اکیلا پاتی ہوں خود کو تو کبھی تنہائی میں محفل کا گمان ہونے لگتا ہے اور سرگوشیاں ہیں کہ ہر جا ہر لمحہ سنائی دیتی ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں میں نہیں رہی بس سرگوشیاں ہیں جو ہر پل ساتھ ہیں کبھی بے چین کرتی ہیں تو کبھی سکون آور ثابت ہوتی ہیں ہجر سرگوشیاں کرتا ہے کہ تمہیں کسی پل چین نہیں لینے دوں گا تو امید فوراً سے سکون دینے آ جاتی ھے اور رب رگِ جاں کے قریب بولتا ہے میں ہوں ناں
ﺟﯿﺴﮯ ﺗﺘﻠﯽ ﮐﯽ ، ﺭﻧﮕﻮﮞ ﺳﮯ…!
ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ، ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ہیں…