Episode 7
ابا کی وفات کو پانچ سال ہوئے تھے جب نومبر کی ایک شام بہت سادگی اور عزت سے اماں نے بڑی بیٹی کو پیا سنگ رخصت کروا دیا۔۔۔
اب داماد گھر کا مرد ہونیکی حیثیت سے اماں کے بہت قریب تھا۔۔
سوہنی اور دوسری بہنوں کی تعلیم جاری رہی۔۔
ان واقعات کے بعد سوہنی میں بہت سی تبدیلیاں ائیں۔۔اس نے آئینہ ڈھک دیا تھا۔۔اپنے رشتہ داروں سے وہ سخت نفرت کرنے لگی تھی۔۔
پھپھو کے ہاں رشتے کی بات کسی مرحلے تک نہ پہنچ سکی اماں اور سوہنی کی اب ددھیال سے دوری مزید بڑھ گئ تھی۔۔۔
گجرات والوں کا ان سب واقعات کے بعد بھی سوہنی کے تایا اور پھپھو کے گھروں میں آنا جانا ان کے لئے ناقابل برداشت تھا۔۔
خالہ اماں کی اکلوتی بہن تھی فطرتاً وہ سخت مزاج اور اپنی امارت پہ بہت مغرور عورت تھی۔۔۔بڑے بیٹے کے لئے آپا کے رشتے کی ناکامی کے بعد اب وہ سوہنی کے لئے وقتاً فوقتاً اماں سے بات کرتی رہتی۔۔۔
ایک سال بعد آپا کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئ تو آپا کے سسرال والوں کے رویے میں بہت بڑی تبدیلی ائ۔۔۔اماں نے مسلسل حالات کو نظر انداز کرنیکی کوشش کی ابھی ایک بیٹی اپنے گھر کی ہوئ تھی اور اسکے گھر بھی آئے روز بڑی بہو اور ساس کے تنازعے ہونے لگے تھے۔۔۔دوسری بہو بھرے پرے گھر کی عورت تھی ساس خود جاب کرتی تھیں ۔۔۔رفتہ رفتہ اماں پہ کھلا انکا داماد بظاہر بہت مہذب اور پڑھا لکھا انسان تھا لیکن اسکی شخصیت اسکے گھر میں عیاں تھی۔۔وہ بات بے بات ہاتھ اٹھانے اور گالم گلوچ کا عادی تھا۔۔بھابھی اور اپنی ماں تک کو اس معاملے میں وہ رعایت نہیں دیتا تھا۔۔
ایسا ہی سلوک اس نے سوہنی کی آپا کیساتھ روا رکھا ہوا تھا۔۔آپا اپنے حالات سے اماں کو جب تک بے خبر رکھ سکتی تھی اسنے رکھا۔۔
ابھی پہلی بچی پالنے میں تھی کہ آپا دوبارہ امید سے ہو گئ وہ شادی کے بعد بھی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھی اب گھر بار کی زمہ داریاں بچی اور آنیوالے بچے کے بیچ وہ پس جاتی۔۔لڑائ جھگڑے بڑھنے لگے۔۔۔
اسی بیچ ماموں دبئ سے مستقل پاکستان آ گئے۔۔خالہ نے اب رشتے کے لئے خالو جان کو اماں کے پیچھے کر دیا تھا وہ اماں کے تایا زاد بھائی اور ریٹائرڈ سرکاری افسر تھے نرم مزاج کے شریف آدمی تھے۔۔
اماں جانتی تھی انکے گھر میں انکا رول صرف اے ٹی ایم کارڈ جتنا تھا گھر کے معاملات میں خالہ کسی کی نہیں سنتی تھی۔۔
اماں اب اپنوں کی چوٹ سے ڈر گئ تھی۔۔اسی بیچ آپا کے ہاں دوسری بیٹی کی پیدائش ہوئ اور دوسری بیٹی کو ہاسپٹل کوئ دیکھنے تک نہ آیا سوہنی اور اسکی بہنیں اب سلائ کڑھائ،ٹیوشنز،اور پارلر کے چھوٹے موٹے کام سے اماں کا ہاتھ بٹانے اور اپنا بوجھ اٹھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔ادھر آپا اور دونوں بچیوں کو اماں کو گھر لانا پڑا۔۔۔
آپا کے شوہر اور سسرال والے اوپر تلے بچیوں کی پیدائش سے سخت خائف تھے۔۔۔
جسے بیٹی دیکر بیٹا بنایا تھا اب وہ بھی گھر آتا اور اونچی آواز میں بات کرتا نہ بیوی کو گھر لیجاتا نہ اسکے خرچے کی زمہ داری اٹھاتا۔۔آپا نے ایک پرائیویٹ سکول میں جاب کر لی اسکی جاب ہوتے ہی جیسے اسکی سسرال کو سکون آ گیا اسکا شوہر آیا اور اسے منا کر گھر لے گیا۔۔۔
سوہنی کے لئے جب بھی کسی گھر سے رشتہ آتا اماں مزید ڈرنے لگتی۔۔۔اماں کو خاندان سے ڈر بھی لگتا اور غیروں میں سوہنی کو بیاہنے سے اماں ڈرتی۔۔۔آخرکار بہنوئ کے وعدوں ،تسلیوں،بھائ کی منتوں کے آگے اماں ہار گئ۔۔
آپا کے ہاں دو بیٹیوں کی پیدائش کے بعد بیٹے کی پیدائش ہوئ۔۔۔اسکا بیٹا ہو بہو سوہنی کا پر تو تھا۔۔اب وہ ہر تیسرے دن شوہر سے مار کھانے اور اپنے اخراجات کے معاملے میں آخری حد تک صبر کرنیکی عادی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔
سوہنی کی شادی خالہ کے یہاں طے ہو گئ۔۔۔خالہ کا گھرانہ بہت امیر تھا خالہ کے بچوں کیساتھ کھیلتے بچپن بیتا تھا۔۔
خاندان میں سوہنی اور ارتضی کی جوڑی کو چاند سورج کی جوڑی قرار دیا گیا۔۔سہیلیاں مل بیٹھیں۔۔ڈھولک رکھی گئ ٹپے گائے گئے
سوہنی کی شادی پہ ماموں نے جو دلہا اور دلہن دونوں کے ماموں تھے بھرپور انتظامات کئے۔۔اماں اپنے فرائض ادا کرنے پہ مطمئن بھی تھیں دوسری طرف انہیں اپنے فیصلوں پہ شک بھی ہوتا تھا۔۔۔انیس سالہ سوہنی دلہن بنی اور شہنائیوں کی گونج میں ابا کی تصویر کے سائے تلے رخصت ہو گئ۔۔۔خالہ کے گھر میں اسکا بھرپور استقبال ہوا۔۔۔
شادی کے ابتدائی دنوں میں ہی اسنے اپنے گھر سے گہری انسیت پال لی وہ اماں کے گھر بہت کم کم جاتی۔۔اکثر خالہ عادتاً اسے سخت سست سنا دیتیں وہ کبھی کسی سے نہ کہتی۔۔
ارتضیٰ مزاجاً ایک مشکل انسان تھا بیحد پراسرار۔۔سنجیدہ مزاج وہ بچپن سے سب سے الگ تھلگ رہتا تھا۔۔سوہنی کی زندگی اب شادی کے بعد بلکل گھریلو ہو گئ تھی وہ سسرال میں موجود واحد بہو تھی جس پہ بہت زمہ داریاں تھیں وہ بھی اب مزاجاً بدلتی جا رہی تھی۔۔پھر شادی کے ٹھیک سوا سال بعد اسکے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئ۔۔اب وہ ایک بیٹے کی ماں تھی ۔۔۔ایک بیٹے کی ماں نہ ہونیکی قیمت اسکی ماں نے ساری عمر چکائ تھی۔۔جب اماں کو لگنے لگا کہ میری سوہنی افسر نہیں بن سکی لیکن اب زندگی خوش اسلوبی سے گزر رہی ہے تو تقدیر نے اپنا ستم دہرا کر اماں کی اس غلط فہمی کو دور کر دیا۔۔شادی کے ٹھیک ڈیڑھ برس بعد ایک اور ٹریفک حادثے نے سوہنی کے ابا کی طرح اسکے بچے کا باپ چھین لیا۔۔
سوہنی الٹے پیروں اپنی شہزادیوں جیسی شکل و صورت اور تقدیر کے زخموں کی گٹھڑی اٹھائے بیس برسوں میں یتیمی سے بیوگی کا سفر طے کر کے واپس ماں کی کٹیا میں پہنچ گئ تھی۔۔۔سچ ہے نصیب رونے سے نہیں بدلتے۔۔۔نصیب تو نصیب والوں کے بدلتے ہیں۔۔۔!!!!!!