Sohni Episode 2
ابا کے جاتے ہی دنیا میں بہت سی چیزیں کم ہو گئیں پیار،محبت،پیسے،چیزیں
رشتے دار بھی کم ہو گئے۔۔
اب ماموں مصروف رہنے لگے۔۔تایا تائ تو گھر کا رستہ بھول
گئے۔۔۔خالہ آتی اور جب بھی آتی انکے جانے کے بعد اماں کے چہرے کا رنگ مزید پھیکا
پڑ جاتا۔۔دن کاٹے نہ کٹتے رات لمبی ہوتی جاتی۔۔
یتیمی اور تنہائی کے کیلنڈر میں ہر مہینہ سو دن کا ہوتا۔۔
اماں کو پوری پوری رات نیند نہ آتی۔۔دہرے تالے اور کنڈیاں
لگائے بستر پہ کپکپاتی اماں وقت بے وقت خوامخواہ کھانستی خود کو تسلیاں دیتی کہ وہ
جاگ رہی ہے۔۔
سوہنی کو ابا کے جاتے ہی اپنے خالی گھر سے خوف آتا وہ
اماں کے پاس جا لیٹتی اماں دور بھگاتیں جا پینے کول لیٹ۔۔تو نکی ایں کہ تینوں کول سوالاں۔۔سوہنی
کمزور آواز میں احتجاج کرتی۔۔
اماں مینوں ڈر لگدا۔۔
نہ کس توں ڈر لگدا۔۔میں جیوندی آں ہلے جا سو جا میں جاگ
ری آں۔۔سوہنی کو دل سے یقین تھا کہ اماں خود بھی ڈرتی ہے۔۔پر وہ اماں کے یقین پہ
یقین کر کے سو جاتی کبھی جاگتی رہتی۔۔۔
ابا کو گزرے تین مہینے ہونیکو آئے سوہنی کے ہائ سکول کا
پہلا سال تھا اب اکثر سکول سے چھٹیاں رہنے لگیں۔۔اماں رات بھر جاگتی تو اکثر دن
چڑھے تک اٹھ نہ پاتی۔۔
ایک روز پرانے پرائمری سکول کی ایک سہیلی نے بتایا کہ
پرانے سکول میں مینا بازار ہے۔۔
سوہنی کی آنکھوں میں بجلی کوندی۔۔
وہ دوڑ کے سٹور میں گئ۔۔
پھپھو کا دیا ہوا نیلا کڑھائی والا جوڑا پہنا ٹاپس پہنے
آئینے میں خود کو گھوم گھوم کر دیکھا اور پرانے سکول کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔
جہاں جہاں سے گزرتی اسے لگتا سب اسے ایسے پھٹی آنکھوں سے
دیکھتے جیسے وہ کوئ اجنبی مخلوق ہے۔۔۔
پرانے سکول میں اسکی سہیلیاں بنی ٹھنی چاٹ اور سموسے کھا
رہی تھیں۔۔۔اس نے دیکھا اسکی پرانی مس نے ایک پلیٹ میں چاٹ ڈالی اور ایک لڑکی کو
اسے دینے کا اشارہ کیا۔۔۔
اس لڑکی نے چاٹ سوہنی کے سامنے رکھی تو سوہنی نے جھجک کے
ہاتھ پیچھے کر لئے۔۔میں نے چاٹ نہیں منگوائی مجھے کیوں دے رہی ہو۔۔۔
اس لڑکی نے اصرار کیا کہ تمہیں مس نے بھیجی ہے۔۔
سوہنی غصہ ہو گئ جاؤ مس کو واپس کر دو۔۔
میں نے چاٹ نہیں منگوائی نہ میں نے اسکے پیسے دئیے ہیں
میں کیوں لوں۔۔۔
اس سے ایک سال پیچھے کی پرانی ہم جماعت شازیہ بولی کوئ
بات نہیں سوہنی تم کھا لو۔۔۔
میں پیسے دے دونگی ویسے بھی مس تم سے پیسے نہیں کرینگی تم
یتیم ہو ناں۔۔تمہارے تو ابو بھی نہیں ہیں۔۔۔
سوہنی کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔۔۔
نہیں میں یتیم نہیں ہوں۔۔اور مجھے یہ چاٹ نہیں کھانی۔۔تم
میرے پیسے دو گی۔۔۔شکل دیکھی ہے کبھی اپنی؟
وہ گرجتی ہوئ شازیہ کی طرف لپکی تو سہیلیوں نے اسے بیچ
میں ہی جکڑ لیا۔۔
شازیہ حیرت اور تاسف سے ملی جلی کیفیت سے اسے دیکھتے ہوئے
بولی۔۔
سوہنی لڑ کیوں رہی ہو میری شکل تم جیسی نہیں ہے میں
تمہاری طرح فرسٹ بھی نہیں آتی پر میرے پاس چاٹ کھانے کے پیسے ہیں کیونکہ میرے ابا
ہیں۔۔تمارے تو ابا نہیں ہیں۔۔اس لئے تمہیں مس نے ایسے ہی چاٹ دے دی سب یتیموں کی
مدد ایسے ہی کرتے ہیں میں بھی تمہاری مدد کر رہی ہوں۔۔اس میں غصے کی کوئ بات نہیں۔۔۔
مجھے تم سب کی کوئ مدد نہیں چاہئے ہے۔۔۔سوہنی نے ہاتھ مار
کے چاٹ کی پلیٹ الٹ دی۔۔۔میں یہاں تم سب کیساتھ کھیلنے آئ تھی مجھے یہ مفت کی چاٹ
نہیں لینی ہے اور آئندہ کبھی مجھے یتیم نہ کہنا ۔۔میں یتیم نہیں ہوں میں سوہنی
ہوں۔۔۔یہی میرا نام ہے۔۔
مس ساجدہ اپنی جگہ سے اٹھ کر وہاں آئیں تمہارا دماغ خراب
ہو گیا ہے لڑکی۔۔۔
باپ کو مرے چار دن نئیں ہوئے اور تم مٹک مٹک کے مینا
بازار دیکھنے چلی آئ ہو۔۔۔اوپر سے دوسروں کا نقصان کرتی ہو۔۔۔
سوہنی حیرت سے مس ساجدہ کی طرف دیکھتی رہ گئ۔۔۔
وہ جانتی تھیں اسے مینا بازار کتنا اچھا لگتا تھا پچھلے
سال انہوں نے خود اسے دلہن بھی بنایا تھا اور اسے تیار کرتے ہوئے بھی وہ مسلسل
اسکی تعریفیں کرتی رہی تھیں وہ جماعت کی سب سے لائق لڑکی تھی یہ بھی وہ جانتی
تھیں۔۔۔
تو آج اچانک وہ اس سے ایسے بات کیوں کر رہی تھیں۔۔اس نے
تو چاٹ نہیں مانگی تھی وہ آنکھیں پونچھتی ،سسکیاں دباتی گھر کو بھاگی۔۔۔
صحن میں اماں برتنوں کا ڈھیر لئے مانجھ رہی تھی
اسے دیکھتے ہی اماں کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔
وے مرن جوگئیے۔۔کتھے گئ سیں میم ساب بن کے تینوں شرم نی
آئ پیو دا کفن میلہ نی ہویا تے توں نوے کپڑے پاندی پھردی۔۔اماں جوتیاں مارتی جاتی
اور خود بھی روتی جاتی۔۔۔
وے اگ لا دیو تسی ساریاں ایناں کپڑیاں نوں۔۔چولہے وچ ساڑ
دیو ہن کون تواڈیاں راکھیاں کریگا۔۔۔مر جانیوں ہن تسی یتیم او یتیم۔۔۔
ایک آگ تھی جو سوہنی کے تن بدن میں لگ گئ۔۔
اماں ہن نہ کہنا یتیم۔۔۔تسی ہور مار لو۔۔۔کپڑے وی ساڑ دیو
اندر ڈک دیو پر مینوں یتیم نہ کہنا۔۔۔میں مر جاں گی،مار دیاں گی جے ہن مینوں کسے
یتیم کہیا۔۔۔سوہنی گلا پھاڑ پھاڑ کے چیخی اماں بت بنے اسے دیکھتی پھر سینہ پیٹتی۔۔۔وے
ایس ویلے لئ سمجھاندی ساں تیرے پیو نوں۔۔دھئیاں نوں اینے لاڈ نئ دئے دے۔۔یتیم نوں
یتیم نہ آکھن گے تے کی آکھن گے لوکی۔۔۔
اماں میں کہیا ناں یتیم نئیں آکھنا میرا سینہ سڑھ جاندا
اماں ۔۔۔مینوں گالاں کڈ لو۔۔مینوں کتی بلی کہہ لو پر مینوں یتیم نہ کہناں
ہن۔۔۔اماں نے ایک نظر ٹوٹی پھوٹی مرجھائ ہوئ سوہنی پہ ڈالی اور اسے سینے سے لگا
لیا۔۔۔اچھا نئیں کیندی۔۔چل چپ کر جا۔۔۔رویا نہ کر۔۔۔تیرا پیو وی روندا ہونا تینوں
روندا ویکھ کے۔۔ہن نوے کپڑے نہ پاویں۔۔۔
میں وی نوے کپڑے نہ پاواں اماں؟؟تسی وی چٹے کپڑے پا لئے
اسی سب پیناں نے وی ہن چٹے کپڑے پانے؟؟
سوہنی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔
نہ پتر اللہ تواڈیاں حیاتیاں کرے۔۔تسی رج رج سوہے جوڑے
پاؤ پر پتر ایس کار اچ ہن کوئ مرد نئیں۔۔ہن تسی اپنے کار جانا تے فیر جوڑے پانا۔۔۔
اپنے کار؟؟
سوہنی نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
اماں میں جس لے وڈی افسر بن جاں گی تے فیر اسی نوے کار
جاواں گے فیر اوتھے جا کے اسی نوے جوڑے پاواں گے؟؟تے اتنے سال اسی نوے جوڑے نئیں
پانے اماں؟؟؟
نہ دھئیے ۔۔۔ہن افسری بھل جا۔۔ہن کنہے تینوں افسر
بنانا۔۔۔میں تے شکر دے کلمے پڑھساں جس دن توں ووہٹی بن کے خیریں آپنے گھر جاسیں۔۔۔
ایک سرد لہر سوہنی کے پورے وجود میں دوڑ گئ۔۔
وہ بھاگتی ہوئی آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئ۔۔
اماں توانوں کی ہویا۔۔۔سب نوں کی ہو گیا۔۔۔ایدر ویکھو
ویکھو آ کے شیشہ۔۔۔ویکھو میں سوہنی آں۔۔میں سوہنی لگ ری آں۔۔۔ابا مر گئے فیر وی
میں تے سوہنی لگ ری آں ۔۔۔
تسی سارے اینی جلدی کیوں بدل گئے او۔۔۔؟تساں ساریاں نوں
کی ہو گیا اے۔۔۔
پھر ایک دم وہ آئینے کی طرف پلٹی خود کو دیکھا اور بے
تابی سے ابا کی کرسی کی طرف نگاہ اٹھائ۔۔۔
کرسی خالی تھی۔۔۔
اسنے جانا۔۔۔یتیمی کسے کہتے ہیں اسنے مانا وہ یتیم ہو گئ
ہے۔۔۔!!!!