بول کے لب آزاد ہیں تیرے…….عائشہ چوہدری
ول کے لب آزاد ھیں تیرے پر سمجھ یہ نہیں آ رہا بولوں کس سے؟ سماعتیں سب قید ھیں دماغ سیلن زدہ کمروں کے بند کواڑوں سے جھانک کے باہر دیکھتے تک نہیں سب انسان اپنے اپنے جسموں میں اپنا اپنا بوجھ اٹھائے اپنے لاشے گھسیٹتے پھرتے ھیں اور میں ان سے آزاد لبوں کے قصے کہوں؟ ؟؟ صبح سے شام میں جتنے آدم زاد اپنے آس پاس آزاد چلتے پھرتے، ہنستے بولتے دیکھتی ہوں ایک سکرپٹڈ اسٹیج شو کے فنکار لگتے ھیں، ،انکی آزاد ہنسی،آزاد تکلم، ہر ہر آزاد نظریہ کے پیچھے مخصوص طبقاتی تقسیم، جنسی تعصب اور معاشرتی استحصال جھلکتا ھے اندر ھی اندر گونگا پن جب وحشی عفریت بن کے میرے وجود کو کاٹنے لگتا ھے تب میں کائنات کی واحد آزاد مخلوق سے رجوع کر لیتی ھوں کھل کے ہنستے،ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوتے بچے زمین پہ لیٹ کے ایڑیاں رگڑ رگڑ کے بہتی ناک سے بے پروا بچے اپنی کہنے، اپنے من کی کرنے والے خوش نصیب آزاد بچے ہر تعصب ہر مذہبی اور معاشرتی تقسیم سے لا علم اور افسوس یہ ھے کہ یہ بھی بڑے ھو کر اسی آزاد معاشرے کے آزاد افراد میں شامل ھو جائیں گے جہاں سب اپنے نہ نظر آنے والے مقفل ہونٹوں کی کنجیاں زبان تلے رکھے فر فر بولتے نہیں تھکتے ۔۔اور اندر سوچوں اور لفظوں پہ چلنے والی آری اگر کسی سی سی ٹی وی کی رینج میں آ جائے تو کمال ھو جائے ۔۔۔ میرے لبوں کی ساری آزادی میرے لبوں سے ان ننھے کانوں اور ٹوٹے پھوٹے حرفوں سے لفظ بننے میں ہلکان ھوتے ہونٹوں تک محدود ھے یا آ جا کے بس اک میرا رب ھے جو میرے ہونٹوں کے سارے آنسو سارے شکوے،سارے کھوکھلے قہقہے اور سارے جھوٹے پردوں کے پیچھے میرے من میں بستے،سوچوں کے کنویں میں کائ زدہ میرے سب الفاظ سنتا ھے،جو میری میں سے ہٹ کے میرے مجھ سے واقف ھے اور سچ بھی یہی ھے جب وہ سنتا ھے تو وہی کافی ھے۔۔۔ گونگے معاشرے کے بہرے افراد کو آپس میں بولنا سننا زیب ہی نہیں دیتا بس اتنا ہی کافی ھے بچہ جمہورا گھوم جا گھوم گیا کیا دیکھا دنیا دیکھی دنیا میں کیا دیکھا آذاد لبوں کو سلتے دیکھا بچہ جمہورا مت دیکھ اندھا ھو جا ھو گیا ۔ ھو گیا۔