عشق لا حاصل ، تحریر صاعقہ چوہدری
مجھے لگتا تھا وہ نہیں آئے گا۔۔ میری زندگی یوں ہی ریت کی ماند سرکتی جائے گی اور اک روز مٹی کا آخری دانہ بھی گر کر میرے وجود کو خاک میں ملا دے گا۔۔ اک روز میں بھی کٹھن زندگی کے سفر کو خیرآباد کہتی سکون کی نیند جا سوؤں گی۔۔ زندگی سے وابستہ میری ساری امیدیں دم توڑ گئی تھیں مگر اس دو جہاں کے رب نے مجھے امید دلائی بلکہ یوں کہیں کہ مجھے میرے صبر کا اجر دیا۔۔۔
اک روز میں سجدے میں گری دیر تک بلکتے رب سے اپنی قسمت لکھواتی رہی تھی۔۔ اپنی محبت کو حاصل کرنے کا جنون سوار تھا۔۔ میں اس بات سے انجان تھی کہ میری ماں مجھے سجدے میں بلکتا دیکھ چکی ہیں۔۔
نماز سے فارغ ہوئی تو وہ یونہی ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد پوچھنے لگیں۔۔ “کیا چاہئے تمہیں اللّٰہ سے جو اتنا رو رہی تھی۔۔؟؟” مجھے حقیقتاً حیرت ہوئی تھی۔۔ میں تو ہمیشہ تنہائی میں نماز پڑھا کرتی تھی کہ اللّٰہ تعالٰی سے اپنی بات منوا سکتی۔۔ پھر امی نے کیسے؟؟؟ “کیا چاہئے؟ مجھے بتاؤ۔۔ میں دوں گی۔۔” اس لمحے شدت سے دل چاہا کہ ان سے لپٹ کر خوب روتی۔۔ مگر پھر احساس ہوا کہ امی نے محض چند منٹ آنسو بہاتے دیکھا اور مجھے میری پسندیدہ چیز دینے کی حامی بھر لی۔۔ پھر۔۔ پھر وہ رب تو مجھے ستر ماؤں جنتی محبت کرتا ہے۔۔ وہ مجھے ہرگز بھی خالی ہاتھ نا لوٹائے گا۔۔
میری دعا تھی کہ اگر وہ شخص میرے لئے بہتر نہیں تو محبت کی ان کونپلوں کو بڑھنے سے قبل ہی دل میں ختم کر دیں۔۔ اس محبت کے وجود کو ہی ختم کر دیں۔۔ مگر ایسا نہ ہوا اور میرے دل میں اس شخص کی محبت دن با دن بڑھتی اک گھنے تناور درخت کی صورت اختیار کر گئی۔۔ میں چاہتی تھی کہ رب اسے سیدھی راہ پہ گامزن کر دیتا۔۔ وہ اس کی انگلی تھام اسے سنوار دیتا۔۔ میں محض اس کے کْن کی محتاج تھی۔۔
مگر جلد ہی میری امیدیں ٹوٹ گئیں۔۔ بھلا گنہگاروں کی دعائیں کہاں عرش تک جایا کرتی تھیں۔۔ لیکن میرے آنسو؟ کیا وہ بھی اثرانداز نہ ہوئے تھے؟ کیا وہ بھی عرش تک نہ پہنچے تھے؟ کیا مجھے بلکتا دیکھ فرشتوں نے میرے حق میں دعا نہ کی تھی؟ وہ تو رب ہے۔۔ دو جہانوں کا رب۔۔ پل میں انسان کو زمین سے عرش پہ جا بیٹھائے۔۔ اور چاہے تو پل میں آسمان سے زمین پہ لا پٹخے۔۔ تو کیوں ستر ماؤں جتنی محبت کرنے والے رب پہ میرے آنسو اثرانداز نہ ہوئے؟
اور آج اسے اپنے مقابل دیکھ مجھے میرے سبھی سوالوں کے جوابات مل گئے۔۔ اپ-ٹو-ڈیٹ رہنے والا لڑکا آج مرجھائے چہرے سمیت کھڑا، آنکھوں میں نمی لئے ہانپ رہا تھا۔۔ اس کی نگاہیں مجھ سے پل بھر کو بھی نہ ہٹیں اور میں۔۔ میں تو اپنی جگہ منجمد رہ گئی تھی۔۔ لب کپکپا رہے تھے مگر ان سے لفظ ادا ہونے سے انکاری تھے۔۔
“اسلام علیکم!” اس نے سلام کی۔۔ میں جواب بھی نہ دے سکی۔۔ بس اس کی بڑھی داڑھی کے الجھے بالوں کو دیکھے گئی۔۔ آنکھوں کے سیاہ حلقے جانے کس چیز کی نشاندہی کر رہے تھے۔۔
مجھے خاموش دیکھ اس نے نگاہیں جھکائیں پھر اٹھائیں تو ان میں نمی تیر رہی تھی۔۔ وہ کہنے لگا۔۔ “یہاں آنے سے پہلے میں مسجد گیا تھا۔۔ اللّٰہ سے دعا کرنے۔۔ کہ وہ تمہیں احساس دلا دیں۔۔ اس بات کی گواہی دے دیں کہ میں واقعی سدھر چکا ہوں۔۔” اس نے بےدردی سے اپنی ہونٹ کاٹے۔۔ “اور جانتی ہو انہوں نے مجھ سے کیا کہا؟؟؟” میرے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔۔ زبان کو گویا قفل لگ چکا تھا۔۔ گالوں پہ آنسو بہتے لکیریں چھوڑ گئے تھے۔۔
“انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم واقف ہو۔۔ وہ گواہی دے چکے ہیں۔۔ میں نے کہا کیا وہ مجھے اپنا لے گی تو کہنے لگے وہ تمہاری ہی منتظر ہے۔۔” وہ خاموش ہوا تو اب کی بار خاموشی کا وقفہ طویل ثابت ہوا۔۔ اس دوران سسکیاں، سرد آہیں اور آنکھوں کی نمی دیر تک گفتگو کرتی رہی تھی۔۔
“مجھ سے نکاح کرو گی؟” سانس تھم گئی۔۔ سب اک خواب کی صورت لگا جو ابھی ہوا میں تحلیل ہو جانے والا تھا۔۔ اور پھر پیچھے محض میرے آنسو اور سسکیاں رہ جانے والی تھیں۔۔ مگر ایسا نہ ہوا۔۔ یہ حقیقت تھی جو خواب سے کئی گنا زیادہ خوبصورت تھی۔۔
مجھے لگتا تھا اسے دیکھوں گی تو دکھ سے اپنے آپ ہی مر جاؤں گی۔۔ اس کے سامنے کھڑی اسے اس کی خطائیں گنواؤں گی۔۔ اس سے گلہ کروں گی۔۔ کہوں گی کہ “میں روزِ محشر اللّٰہ سے آپ کی شکایت کروں گی۔۔ کہ۔۔ کہ میں نے تیرے بندے سے بےجا محبت کی اور۔۔ اس نے مجھے اپنایا نہیں۔۔” مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔۔ کوئی گلہ نہ کیا گیا۔۔ لبوں کو مسکراہٹ چھو گئی اور گردن خود باخود اثبات میں اوپر سے نیچے ہلی۔۔
میں نے رب کی رضا کیلئے اپنی محبت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور آج اسی رب نے میری محبت کو میرے حق میں بہتر کرتے میری قسمت کے پنوں پہ درج کر دیا تھا۔۔ بےشک پاک محبت کا انجام خوش گوار ہوتا ہے کہ اس میں شامل ہوتی ہے ربِ تعالٰی کی رضا۔۔۔
بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔