عکس ، عمیرہ احمد ، تبصرہ ، ماہ نم
ناول: عکس
مصنفہ: عمیرہ احمد
تبصرہ: ماہ نم
زندگی سے زیادہ عجیب شاید میں نے کسی کو نہیں پایا۔۔ جینے کی چاہ میں پل پل مرنا اور۔۔۔ مرنے کی چاہ میں پل پل جینا۔۔۔ جانے کتنے ہی لوگ اس دنیا میں ایسے ہیں جو۔۔ زندگی کے سیاہ اور سفید میں الجھے ملتے ہیں۔۔۔ مگر ان سیاہ اور سفید کے بیچ ایک سرمئی حلقہ بھی پورے آب و تاب کے ساتھ پایا جاتا ہے جو زندگی کے چہرے پر عیاں تھکن کی غمازی کرتا ہے۔۔ چغلخور کہیں كا۔۔۔۔!
چغلخوری سے یاد آیا۔۔۔ ہمارے یہاں کئی لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو بظاھر تو شہد سے تر ملتے ہیں مگر موقع ملتے ہی اُنکے تلخ و تُرش لفظوں سے بھرا صندوق کھل جاتا ہے۔۔ ان صندوق سے برآمد ہونے والے الفاظ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کسی بوسیدہ صندوق میں موجود گرم کپڑے۔۔۔ جن کی تاثیر زیب تن کرنے والے کو ایک مخصوص موسم میں تو بھاتی ہے لیکن بے موسم سخت ناگوار گزرتی ہے۔۔۔ ایسے ہی کئی بے موسم ناگواریت کو مسکرا کر سہہ جانے والی لکھاری ہیں عمیرہ احمد۔۔۔ گو کہ اِن کے یہاں عموماً ایک سے ہی پلاٹ پر مبنی کئی کہانیاں ملتی ہیں جن پر مذہب کا تڑکا لازم و ملزوم ہونے کے سبب وہ عموماً تنقید کے زد میں نظر آتی ہیں۔۔۔۔ لیکن۔۔ گیہوں کہ ساتھ گھن کا پس جانا تو کہیں کا انصاف نہیں ناں۔۔۔۔۔!!
عمیرہ احمد سے میرا پہلا تعارف نویں جماعت میں “یہ جو ایک صبح کا ستارہ ہے۔۔” سے ہوا۔۔ زندگی کے سفر میں جیسے ایک ہوا کا جھونکا آیا اور چھو کر گزر گیا۔۔۔ دوبارہ ان سے میری ملاقات ایک طویل عرصے بعد گریجویشن میں ہوئی جہاں وہ اپنی شخصیت کے ایک منفرد پہلو کے ہمراہ جلوہ گر تھی۔۔۔۔۔۔ ایک ایسا پہلو جہاں اُنکا عکس۔۔ نمایاں تھا۔۔۔ جس نے حیاتی کے کئی کرداروں کو وقت کے آئینے کے روبرو کرتے ہوئے اُن کے دھندلی شبیہہ کو واضح کیا ہے۔۔
اِس کہانی کا آغاز ڈی سی ہاؤس کے ایک قدیم مگر سحر انگیز آئینے سے ہوتا ہے۔۔ جو کرداروں کو اُن کے عکس سے متعارف کرواتا ہے۔۔۔ ناول شروع میں شدید اُلجھا ہوا ہے۔۔ چند صفحے سمجھ سے بالا تر تھے تو میں نے دوبارہ پہلے صفحہ سے پڑھنے کا فیصلہ کیا۔۔ (ضروری نہیں یہ ناول کی پیچدگی ہی ہو۔۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ میری ناقص عقل سمجھنے سے قاصر رہی ہو)۔۔۔ خیر کہانی کے شروع میں ہی ہیرو کا تعارف ہو گیا جو کہ حسبِ معمول چھ فٹ سے اونچا، تیکھے نقوش اور کسرتی جسم لئے، لڑکپن میں قدم رکھتی جانے کتنی دوشیزاؤں کے دل کی دھڑکن کے تاروں کو چھیڑ دینے ولا تھا۔۔۔ موصوف کی تعریفوں سے باہر نکلیں تو کہانی کا مرکز ایک بےحد بہادر اور پھرتیلی چڑیا ہے۔۔۔ واجبی شکل و صورت اور اور سانولی رنگت والی۔۔ (صد شکر کہ یہاں کچھ روایتی نہیں تھا۔۔۔) جو کہ ڈی سی ہاؤس کے خانسامہ خیر دین کی نواسی تھی۔۔
یہ سفر ہے چڑیا کا عکس مراد بننے کا سفر۔۔۔ایک ایسا سفر جہاں چڑیا کی چہچہاہٹ کئی زندگیوں کا کُل اثاثہ ہے۔۔ ننھے پروں سے اُڑان بھرتی چڑیا کی آسمان چھونے کی لگن جہاں اُسے دوسروں سے منفرد بناتی ہے وہیں۔۔۔ سات بونوں کے تخیل نے پڑھنے والے کے گرد حصار باندھ رکھا۔۔۔ ذکر سفر کا ہے اور۔۔۔ وہ سفر ہی کیا جو آبلہ پاء نہ کر دے۔۔۔! دورِ حاضر میں ہونے والے سب سے بڑے ستم کی ترجمانی کرتے۔۔ چڑیا کہ پر اڑان سے قبل ہی نوچ دئے جاتے ہیں۔ نو سال کی عمر میں درندگی کا شکار ہونے والی چڑیا جہاں ایک رات کی کیفیت سے نہیں نکل پاتی وہیں زمانے کی باتوں نے اُسے اپنا آپ تماشہ بنا چھوڑا تھا۔۔جہاں لفظوں کی تپش جھلسا دینے کو کافی تھی وہیں وقت کے ستم نے اُسے اپنا آپ مجرم بنا دیا تھا۔ اور کسی ناکردہ جرم کے پاداش میں خود کو خود سے ہی چھپانے کا کرب کون جانے۔۔۔!!
میں کوئی اور نہیں عکس نما ہوں تیرا..
تُو مرے سامنے آنے سے گریزاں کیوں ہے۔۔!!!
وقت کی دھار خواہ کتنی بے رحم کیوں نہ ہوں۔۔ كرچیوں کو سمیٹ کر احساس سے جوڑنے والا ایک شخص گر میسر ہوجائے تو بسترِ مرگ پر لیٹا وجود بھی جینے کی آرزو کر بیٹھے۔۔!!
ایک مقام پر عمیرہ لکھتی ہیں۔۔
“زندگی کا ہر امتحان انسان ذہانت اور محنت سے پاس نہیں کر سکتا۔۔بعض امتحانوں کے لیے قسمت کے علاوہ اور کوئی چیز درکار نہیں ہوتی۔۔”
حقیقت بھی تو یہ ہی ہے۔۔ یہ قسمت ہی تو ہے۔۔ جس سے ہار کر بھی لڑنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔ یہ قسمت ہی تو ہے جو۔۔۔ سب کچھ چھین کر بھی عطا کے در بند نہیں ہونے دیتی۔۔۔۔۔ اور یہ بھی تو قسمت ہی ہے جو۔۔۔ خیر دین جیسے لوگوں کی انگلیاں ہمارے ہاتھ میں تھما دیتی ہے۔۔
اس سفر میں خیر دین کا کردار بہت مضبوط ہے۔۔۔ جہاں عموماً عورتوں، بچیوں کو ناکردہ جرم کی سزا سنا دی جاتی ہے وہاں خیر دین کے کردار نے معاشرے میں موجود ایسے ہر شخص کے منہ پر طمانچے کا کام کیا ہے جو معصوم کلیوں کو، شریر بچوں کے ہاتھوں مسلے جانے کے بعد۔۔۔ اُن سے کھلنے کی جستجو کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔۔۔۔!!
تخیل کو آباد کرنے والے بونوں سے جہاں ڈھیروں شکووں نے رابطے ختم کروا دئیے وہیں خیر دین کی انتھک محنت اور حوصلے نے ننھی چڑیا کو ڈاکٹر عکس مراد کے روپ میں اُبھارا۔۔ ایک ایسا کردار جو ہمارے آس پاس بکھرے جانے کتنے ہی گھروں کے بجھے چراغوں کو باور کروا رہا ہے کہ ہوا کے ایک جھونکے سے ہار کر بیٹھ جانا عقلمندی نہیں۔۔۔ جو باور کروا رہا ہے کہ۔۔۔ شہباز جیسے درندہ صفت کرداروں کے بیچ سر اٹھا کر عزت سے جینا کیا ہوتا ہے۔۔ اور اپنی ذات کی کرچیوں کو خود میں ہی سمیٹ لینے سے بہترین عمل کچھ نہیں ہو سکتا۔۔ ایک ایسا کردار جس نے بتایا آپکا غریب پیدا ہونا آپکا قصور نہیں لیکن غربت اور غربت کے نتیجے ملنے والی نا انصافیوں کہ بیچ گھٹ گھٹ کے مرنا آپکا ذاتی انتخاب ہے۔۔۔۔۔۔۔جس نے واضح کیا کہ۔۔۔ منہ کہ بل گرنے سے انسان کا منہ تو ٹوٹ سکتا ہے لیکن۔۔ حوصلے نہیں۔۔۔!
دیکھا جائے تو یہ کہانی عکس مراد اور شیر دل کی ہے۔۔ لیکن شیر دل اس کہانی کا مرکزی کردار ہوتے ہوئی بھی پیچھے کہیں دب گیا اور اگر واقعی کسی کردار نے خود کو بطور ہیرو منوایا تو وہ خیر دین ہے۔۔ جو نہ صرف چڑیا کا حوصلہ تھا بلکہ عکس کا مان بھی تھا۔۔۔ جس کی نہ صرف سوچ وسیع تھی بلکہ۔۔ حوصلے بھی بلند تھے۔۔۔ ایک معمولی باورچی ہونے کے باوجود اُس کی سوچ ڈی سی ہاؤس، اور اس معاشرے میں بسنے والے لاکھوں افراد سے برتر ہے۔۔
اِس معاشرے میں ایک ایسی داستان کو قلم بند کرنا جس کو فقط سن کر دنیا قیاس آرایوں سے باز نہیں اتی۔۔ کہ جس کے منظرِ عام پر آتے ہی “مظلوم” کو “مجرم” بنانے اور اس کو لفظوں سے سنگسار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔۔ وہاں۔۔۔ عمیرہ صاحبہ کا ایک منفرد انداز میں داستان کو امر کر دینا۔۔ بے شک ایک بڑی کامیابی ہے
فاطمہ، ایبک، شہر بانو، مہر بانو، باربی ڈول اور ان جیسے کتنے ہی شریکِ سفر کردار کہانی میں موجود ہیں جو اپنا آپ عیاں کرنے کو میرے سامنے قطار بنائے کھڑے ہیں۔۔ لیکن۔۔ میں اُن کرداروں کی کھوج آپ کے سُپرد کرتی ہوں۔۔ ارے جناب۔۔ اگر سب کچھ میں ہی بتا دوں گی تو بھلا آپ کا کیا کردار ہوگا اس عکس بندی میں؟؟
عمیرہ احمد کی روایتی چھاپ کو مٹانے والی یہ کتاب مشعلِ راہ ہے اُن کے لیے جو راستوں سے فریب کھا کر کھو جاتے ہیں۔۔۔ جو سفر کے شروع میں ہی ایک ان چاہے ہم سفر(کرب) کے ہاتھوں باندھ دیے جاتے ہیں۔۔ جو کچی عمروں میں ہی روندہ دیئے جاتے ہیں۔۔ جو روندھا جانے والوں کے ساتھ محوِ سفر رہتے ہیں۔۔ اور جو۔۔۔۔ ماضی کی سیاہ بابوں کو پلٹ کر۔۔۔ نئے باب کی طرف گامزن ہونا چاہتے ہیں۔۔
وہ۔۔ جو واقعی۔۔ جینا چاہتے ہیں۔۔۔!!
کسی نے کیا خوب کہا ہے۔۔
عکس دھندلا رہے ہیں آنکھوں میں۔۔
ہر یقین پہ گمان ہوتا ہے۔۔
اُن کو رستے فریب دیتے ہیں۔۔
جن کو منزل پہ مان ہوتا ہے۔۔۔۔!!