کتاب : تلاش
باب 11 : پلاؤ کی دیگ
پراویڈنشل فیکٹر
مثال کے طور پر پاکستان کو لیجیے ! قیام پاکستان کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں نے کئی ایک سال کوششیں کیں لیکن حالات سازگار نہ تھے۔ پاکستان بننے کی کوئی صورت نہ تھی ۔ ہندو نہیں چاہتا تھا کہ بٹوارہ ہو ۔ وہ اٹوٹ ہندوستان کے نعرے لگاتا رہا تھا ۔ انگریز کا ابتدا سے ہی ہندو سے گٹھ جوڑ تھا۔ ہندو نے ہمیشہ انگریز کا ساتھ دیا تھا۔ ویسے بھی کردار کے لحاظ سے ہندو بہترین ماتحت اور بدترین آقا ہے۔
ان حالات میں اللہ نے مسلمانوں کو ایک لیڈر عطا کر دیا ۔ بے شک محمد علی جناح ایک عظیم لیڈر تھا لیکن پاکستان کے حصول کے لیے اس کا انتخاب بہت غیر موزوں تھا۔ محمد علی جناح اعلی کردار کا مالک تھا وہ اصولوں کا پابند تھا۔
صاحبو ! تم ہی بتاؤ ، کیا سیاست میں بھی کبھی کوئی اصول کا پابند لیڈر کامیاب ہوا ہے۔ خصوصاً جب مقابلے میں پنڈت نہرو اور پٹیل جیسے گھاگ سیاستئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ قیام پاکستان ایک معجزہ تھا۔ پھر یہ بھی قابل توجہ ہے کہ گذشتہ 48 سال سے ہم…. آپ ، میں ، اور ہم پاکستان کو توڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس خداداد پلاؤ کی دیگ کو کھا رہے ہیں، کھائے جا رہے ہیں۔ حرص اور طمع نے ہمیں پاگل کر رکھا ہے۔ شوکت نفس سے ہم فرعون بنے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف سے میں میں کی آوازیں آرہی ہیں۔ اقتدار کے لیے ہم آپس یوں لڑ رہے ہیں جیسے بچے کھلونوں کے لیے لڑتے ہیں۔
ہماری کوششوں کے باوجود پاکستان نہیں ٹوٹا۔ ہماری شکم پروری کے باوجود یہ دیگ جوں کی توں بھری ہوئی ہے ۔ سڑکوں پر موٹروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ دکانیں مال سے لبالب بھری ہوئی ہیں ۔ پلازے یوں بھرے ہوئے ہیں جیسے برسات میں کھمبیاں اگتی ہیں ۔ بازاروں میں ایک ہجوم ہے راستہ نہیں ملتا ۔ بازاروں میں پاؤڈر تھپے ہوئے چہروں ، کاجل میں تیرتی آنکھوں، معطر خضابوں سے رنگے ہوئے بالوں اور لپ اسٹک رنگے دعوتی ہونٹوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے ۔شاپنگ ، شاپنگ ، شاپنگ ، بخار چڑھ رہا ہے۔ ہندوستان سے آنے والے لوگ یہ مناظر دیکھ کر منہ میں انگلی ڈال لیتے ہیں۔ ہے بھگوان ! یہ ملک ہے یا میلہ لگا ہوا ہے۔