Samay Ka Bandhan

اندھا فٹ پاتھیا – سمے کا بندھن

ا ٹیکسٹ: رانا اسامہ

سڑک کے کنارے سوکھے ہوئے ٹنڈ منڈ درخت کا سہارا لیے وہ فٹ پاتھ پر کھڑا ہے. ہاتھ میں لاٹھی ہے. آنکھوں پر بڑے بڑے کالے شیشوں والی عینک لگی ہے. سامنے سڑک پر دھاری دار زیبرا گلی بنی ہوئی ہے. وہ یہاں سال ہا سال سے کھڑا ہے. کب سے کھڑا ہے? یاد نہیں. لگتا ہے صدیاں بیت گئیں. شاید وہ بھول چکا ہے کہ کیوں یہاں کھڑا ہے. شاید وہ سمجھنے لگا ہے کہ یہی اس کی منزل ہے. فٹ پاتھ پر کھڑے رہنا. کھڑے کھڑے پتھرا جانا. کبھی کبھی اس کے ذہن میں دھندلی دھندلی یادیں ابھرتی ہیں. دل سے نحیف سی آواز اٹھتی ہے. نہیں نہیں. یہ میری منزل نہیں. میں تو یہاں اس لیے کھڑا ہوا تھا کہ اللہ کا کوئی پیارا میری ڈنگوری پکڑ کر یہ خونیں سڑک پار کرا دے. اس سڑک کے پار جو ہرا بھرا باغیچہ ہے وہاں پہنچادے. یہ کالی بولی سڑک کتنی خوفناک ہے, جہاں تہ در تہ اندھیرا جھولتا جھومتا ہے. جیسے کسی مہاراج کا ہاتھی بدمست ہو کر باہر نکل آیا ہو. سڑک پر یہاں وہاں منافقت کی بتیاں ٹمٹما رہی ہیں, جو اندھیرے کو اور بھی دم گھٹ بنا رہی ہیں. سڑک پر آوازوں کا ایک طوفان بہے جا رہا ہے. میں میں میں کی ایک مسلسل جھنجھناہٹ جیسے مکھیوں کے چھتے چھڑے ہوئے ہوں. خود ستائی کے اس پس منظر پر درپردہ دھمکیاں, دھونس, خبرداری, زیرلبیاں, جھوٹے دعوے, نمائشی وعدے. کتوں کی طرح بھونکتی ہوئی گاڑیاں. پٹاخے چھوڑتے ہوئے سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئے, جھولتے جھومتے ہوئے موٹرسائیکل. ہٹ جاؤ ہٹ جاؤ چیختے ہوئے بدمست نوجوان سوار. دھوئیں کے مرغولے اڑاتی ہوئی ویگنیں. ہر چند لمحوں بعد آئی, آئی, آئی چیختی ہوئی ایک گاڑی دوسری پر چڑھ جاتی ہے. دھڑاڑاروم ٹکر کی آواز فضا میں گونجتی ہے. ملبے کا ایک انار فضا میں چھوٹتا ہے. ایک چیخ, ایک کراہ.پھر کوڑے کا ایک ڈھیر آ گرتا ہے اور کمیٹی کا بلڈوزر اسے کنارے لگا دیتا ہے. پہیوں پر سوار, رفتار کے نشے میں چور , سڑک پر چلنے والے سنتے ہیں مگر سنتے نہیں. دیکھتے ہیں مگر دیکھتے نہیں. وہ اپنی ہی دھن میں مگن چلے جاتے ہیں. اور تیز, اور تیز. سو وہاٹ? پہیے”میں “کی ہوا سے کچھ اور پھول جاتے ہیں. انا کی شوراشوری کی تانیں کچھ اور چڑھ جاتی ہیں. سڑک کا ازدھا جھولتا ہے, جھومتا ہے. منافقت کی بتیاں آنکھیں مارتی ہیں. ہارن قہقہے لگاتے ہیں. سڑک شرابی کی طرح لڑکھڑاتی چلی جاتی ہے. اور وہ… وہ چپ چاپ سوکھے ہوئے ٹنڈ منڈ درخت کا سہارا لیے کھڑا ہے. جب وہ نیا نیا فٹ پاتھ پر آکر کھڑا ہوا تو کتنا پرامید تھا. ہر آہٹ پر کان کھڑے ہو جاتے تھے. سنو سنو, اس کے پاؤں کی چاپ سنائی دے رہی ہے. وہ آرہا ہے. آرہا ہے. وہی ہے, وہی ہے جو میری ڈنگوری پکڑ کر مجھے منزل تک لے جائے گا. وہی جس کے انتظار میں, مَیں کھڑا ہوں. پاؤں کی چاپ قریب آرہی ہے, اور قریب, اور قریب. اس کی روح سمٹ کر کان بن جاتی ہے. جسم کا ذرہ ذرہ خیر مقدم کیلیے آگے بڑھتا ہے. ہیں! پاؤں کی چاپ تو رکے بغیر گزر گئی. مدہم اور مدہم. پھر خاموشی چھاجاتی ہے, بھیانک خاموشی, لمبی خاموشی. پاؤں کی چاپ پھر رک جاتی ہے. ہیں! وہ ٹھٹھکتا ہے. امید کا دیا پھر روشن ہو جاتا ہے. یہی ہے. یہی ہے وہ رہبر ہے. پاؤں کی چاپ کہے دیتی ہے. یہی وہ راستہ دکھانے والا ہے. بسم اللہ آؤ. آؤ. میں کب سے انتظار کر رہا ہوں. نامیدی مجھے پتھرائے جا رہی تھی. مجھے پتھر ہونے سے بچا لو. آؤ آؤ. پاؤں کی چاپ پھر رک جاتی ہے. اس کے چہرے پہ کرب کروٹیں لینے لگتا ہے. کیا مجھے راستہ دکھانے کیلیے کوئی نہیں آئے گا? کیا یہاں کوئی رہبر نہیں? کوئی نہیں جو آکر کہے بابا! آؤ میں تمہیں پار لنگھادوں… کوئى نہیں آتا.

کوئی نہیں. ویسے آوازیں آتی ہیں. کب سے آ رہی ہیں. مسلسل خالی خولی آوازیں. منہ زبانی آوازیں. پتا نہیں کہاں سے آ رہی ہیں. فٹ پاتھ سے, سڑک سے یا کمیٹی گھر سے. صاف آوازیں, بلند آوازیں جیسے لاؤڈ اسپیکروں سے آ رہی ہوں. بھانت بھانت کی آوازیں. انداز مختلف ہیں لیکن بات ایک ہی ہے. ایک کہتی ہے ٹہرو ميں آ رہا ہوں. میں تمہیں پار لگا دوں گا میرا انتظار کرو. دوسری اعلان کرتی ہے, میں تمہاری مشکل کو جانتا ہوں میں تمہارے راستے کے کانٹے چنوں گا. مجھ پر اعتماد کرو. میں اس جگہ کو گل وگلزار بنا دوں گا. میں میں. پھر ایک رقص کرتی ہوئی آواز آتی ہے, ادھر دیکھو. میرے ایک ہاتھ میں روٹی ہے, دوسرے میں مکان ہے, کپڑا ہے. تمہاری مشکلات حل ہو گیئں. سارے مسئلے طے ہو گئے. اب ذرا مجھے آ لینے دو. میرا انتظار کرو. پھر کوئی کھانستا ہے. کھانسی والا کھانسنا نہیں, خبردار کرنے والا کھانسنا. تم اللہ کے حکم کے پابند ہو. جب تک پابندی کی تکمیل نہیں ہوگی کچھ نہیں ہوگا. کچھ نہیں. تکمیلِ پابندی کی تفصیلات ہم سے پوچھو. اس راز کو ہمارے سوا کوئی نہیں جانتا. صرف ہم جانتے ہیں. صرف ہم, ہم, ہم. ان آوازوں کو سن سن کر اس میں نئے ھوف جاگ رہے ہیں. انوکھے خوف جن سے وہ پہلے واقف نہیں تھا. پہلے اس پر خوف طاری تھا کہ شاید کوئی نہ آئے. اب اسے ڈر ہے کہ شاید کوئی آجائے. پہلے وہ سوچتا تھا کہ کوئی نہ آیا تو کیا ہوگا. اب اسے ڈر ہے کہ کوئی آگیا تو کیا ہوگا. پہلے مایوسی کی عالم میں وہ آسمان کی طرف دیکھا کرتا تھا. آسمان کی نیلگوں روشنی کے پیچھے کوئی مسکراتا. اس کی مسکراہٹ سے امید کی کرنیں نکلتیں. اس کے دل میں حوصلہ پیدا ہوجاتا. لیکن اب…. اب وہ اوپر نہیں دیکھتا. اسے اوپر والے پر بھروسہ نہیں رہا. اسے محسوس ہونے لگا ہے جیسے اوپر والا خود مجبور ہو.لوگ اس کا نام برت رہے ہیں. اپنے مفاد کیلیے استعمال کر رہے ہیں. اپنی شمعیں جلانے کیلیے اس کی چقماق رگڑ رہے ہیں. لوگوں کو ڈرانے کیلیے اس کی رعد کڑکا رہے ہیں. اور وہ چپ چاپ بیٹھا دیکھ رہا ہے. کیا وہ کچھ نہیں کر سکتا? ان شکوک پر وہ لاحول پڑھتا ہے. اس کا دل خوف سے ڈوبنے لگتا ہے. وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ خدا کے متعلق دل میں شکوک پیدا ہوں. خدا تو اس کے دل. میں رچا بسا ہے. اس کا ایمان ذہن کی پیداوار نہیں. اسے دلیل اور عقل سے تعلق نہیں. شکوک اس کے ایمان کو دھندلا نہیں سکتے. وہ ایک عجیب مخمصے میں پڑا ہے. نہیں نہیں. میرا قصور نہیں. یہ شبہات گردوپیش کی دین ہے. میری سمجھ میں نہیں آ رہا یہ کیا ہو رہا ہے. فٹ پاتھ سے ایک زیر لبی اٹھتی ہے. یہ سب کمیٹی والوں کا قصور ہے. سڑک ازخود خونیں نہیں. اسے خونیں بنایا جا رہا ہے. حرکت کو شہہ دی جا رہی ہے تاکہ قیام کے سکون کے تحت حقیقت کا راز کھل نہ جائے. رفتار کے بل ڈاگ کو التزاماََ کھلا چھوڑ رکھا ہےتاکہ اضطراب کا گرداب چلتا رہے. یہ میں میں کا جنگل خود نہیں اگا. اسے اگایا گیا ہے. اسے سینچا جا رہا ہے. یہ سب اس لیے عمل میں لایا جا رہا ہے کہ بڑوں کا یہی حکم ہے. سڑک کو خونی بناؤ اور خونی اور خونی. تاکہ کوئی اسے عبور نہ کر سکے. اس انا کے جنگل کو اور گھنا کرو, اور گھنا تاکہ کسی کو راستہ نہ مل سکے. لوگ فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے پتھرا جائیں. اس ظلمت کے اندھیرے کو اور گاڑھا کرو, اور گاڑھا. جلتی بجھتی منافقت کی بتیو اور ٹمٹماؤ, اور ٹمٹماؤ. سب اندھے ہو جائیں. کوئی منزل کو نہ پا سکے. ان ‘ہم ہم’کو جو راستہ دکھانے کے اجارہ دار بنے بیٹھے ہیں اور شہہ دو تاکہ لوگوں کا راستے پر سے ایمان اٹھ جائے. نہ رہے بانس نہ بجے بانسری. کمیٹی والے احکامات کی پیروی کر رہے ہیں.

کیونکہ خود کمیٹی والوں کا مفاد اس سے وابستہ ہے. کمیٹی والوں کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ بدنظمی قائم رہے, بڑھے. بدنظمی دور ہو جائے تو نظم و نسق والوں کی اہمیت مٹی میں مل جائے گی. وہ اس بڑھتی ہوئی ظلمت پر خوش ہیں. لیکن یہ ظلمت ان کی پھیلائی ہوئی نہیں ہے. وہ تو صرف اسے ہوا دیتے ہیں. یہ تو دساور سے آیا ہوا مال ہے. کسی نے امپورٹ نہیں کیا, صرف ایکسپورٹ کیا گیا ہے.انجن اُدھر چل رہا ہے, دھواں اِدھر نکل رہا ہے. مرلی اُدھر بج رہی ہے, رادھا اِدھر ناچ رہی ہے. پیٹر پین اُدھر بین بجا رہا ہے, چوہے اِدھر پھدک رہے ہیں. ڈوریاں وہاں بڑوں کے ہاتھ میں ہیں, کٹھ پتلیاں یہاں ناچ رہی ہیں. فٹ پاتھ پر بھانت بھانت کی زیرلبیاں رواں دواں ہیں. فٹ پاتھ پر وہ اکیلا نہیں. ہزار لوگ آہٹ پر کان لگائے منتظر کھڑے ہیں. ہر کسی کو کسی نہ کسی کا انتظار ہے. کوئی فردِ واحد کا منتظر کوئى کسی جماعت کا. پھر وہاں پرچاریے ہیں. افراد کے پرچاریے, بڑوں کے پرچاریے. ان پرچاریوں کی بھنبھناہٹ سے سارا فٹ پاتھ گویا مکھیوں کا چھتہ بنا ہوا ہے. پھن پھن پھن. مسلسل بھن بھن. باری باری وہ اس کے پاس آتے ہیں. کہتے ہیں اندھے! خالی انتظار سے کچھ نہیں ہوگا. ہم پر اعتماد کرو. ہمارے پیچھے آؤ. ہم جو دیکھ سکتے ہیں. افراد اور گروہوں کے مسلسل پرچار پر وہ زچ ہو گیا ہے. دفعتاً اس پر جلال طاری ہو جاتا ہے. ٹنڈ منڈ درخت سے وہ اپنے سر کو اٹھاتا ہے. آگے بڑھتا ہے. پھر رک جاتا ہے. آہستہ آہستہ اپنی کالی عینک اتارتا ہے. آنکھوں کے نیچے سے دو آنسوؤں میں بھیگی ہوئی روشن آنکھیں پرچاریوں کی طرف دیکھتی ہیں .بھائیو”میں اندھا نہیں ہوں “وہ آہ بھر کر کہتا ہے “میں نے ان آنکھوں سے اتنا کچھ دیکھا ہے کہ مزید دیکھنے کی ہمت نہیں رہی. اس لیے میں نے آنکھیں بند کر لی ہیں. وہ ایک لمبی آہ بھر کر گویا خود سے زیرلبی کہتا ہے ؛کاش! میں اندھا ہوتا.

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button