Mumtaz Mufti and Ahmed Bashir
ممتاز مفتی ۔۔۔احمد بشیر ۔۔۔۔۔ نیلا پربت
عاصم کلیار
رابطہ: مصنف
ممتاز مفتی اور احمد بشیر کی دوستی کی زمانی مدت بھی کم و بیش ساٹھ برس کے عرصے پر محیط تھی دونوں شخصیات اپنی جگہ بھاری پتھر دونوں زمانے اور وقت سے باغی ممتاز مفتی نے جب احمد بشیر کا خاکہ لکھا تو اس کا نام “غنڈہ ” رکھا اور جب احمد بشیر نے ممتاز مفتی کی شخصیت پر قلم اٹھایا تو اس تحریر کا نام ” سورما ” رکھا احمد بشیر کو “سورما ” کے تین ضمیمہ لکھنا پڑے مگر تشنگی تحریر پھر بھی بار بار پکارتی رہی.
احمد بشیر ذہین ادمی تھے بشری انصاری اور نیلم احمد بشیر نے ذہانت باب سے ورثے میں پائی قیام پاکستان کے بعد احمد بشیر نے Hollywood سے فلم بنانے کی تربیت حاصل کی ممتاز مفتی نے کہانی لکھی اور احمد بشیر نے اس کہانی کو “نیلا پربت ” کے نام سے فلم کی صورت میں ڈھالا وہ فلم وقت سے پہلے بنائی گئ تھی اور اس کو ہم پاکستان کی پہلی آرٹ فلم بھی کہہ سکتے ہیں کچھ تصاویر اس فلم سے متعلق اپ کے ساتھ بانٹ ریا ہوں اس فلم سے متعلق یہ تحریری و تصویری مواد میں نے 18 برس پہلے بہت مشکل سے ڈھونڈا تھا افسوس یہ فلم میں آج تک نہیں دیکھ سکا
ایک بار نیلم آپا نے کہا تھا کہ فلم ان کے پاس ہے میں نے کاپی کے لۓ ان سے کہا بھی تھا آج پھر ان کو وعدہ یاد دلاتا ہوں آگر اپ دوستوں کے پاس نیلا پربت سے متعلق کچھ ہو تو مجھے بتائے گا
اس فلم میں ایک گانا ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم اور احمد بشیر کی بیگم محمودہ احمد بشیر نے مل کر گایا تھا