بول کہ لب آزاد ہیں تیرے…………….محمد فرحت پاشا
“بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” ہمیں اتنی آزادی مل گئی کے جو چاہیں کہہ سکیں .. جس کے خلاف چاہیں بولیں … ہر زیادتی کو اجاگر کریں حتی کہ ہرشخص بولنے لگ پڑا اخبار کتابیں لکھ لکھ کر بھر گئے … لیکن یہ کسی نے نا بتایا کہ جب بولنے والا بولتا ہے تو ایک سننے والا بھی ہونا ضروری ہے جس کا کا م سننا ہوتا ہے تاکہ بولنے والا وہی لفظ روز نا دھرائے کے حسن الفاظ نا ختم ہو ورنہ وہی لفظ کوئی دوسرا بولنے لگے تو کوئی نہیں سنے گا ایک دوائی بھی روز کھا کھا کر اپنا اثر کھو دیتی ہے لیکن ہم ادھوری بات کرنے کے عادی ہیں یہ ضرورت نا سمجھی کے جنکو بولنا سکھا رہے ان کی ضروتوں کو بھی مٹانا ہے یہ اسی وقت بولیں گے جب انکو انصاف نہیں ملے گا جب ان کے بچے بھوک سے بلکیں گے جب انکی آرزویں پوری نہ ہونگی تو قومی خزانے سے اپنا حق مانگیں گے جب ان کے بچے بیمار ہوں تو یہ علاج مانگنے آہیں گے جب یہ اپنی محنت کا حق مانگنے آہیں گے یہ دستور میں لکھے حق مانگنے آہینگے ان کے لبوں پر یہ ترانہ بن چکا ہوگا “یہ شاہراہیں اسی واسطہ بنی تھیں کیا ؟ کہ ان پر دیس کی جنتا سسک سسک کر مرے اور زمین نےاسی کارن اناج اگلہ تھا کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کرمرے”